بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

محمدظہیر

محفلین
مسلمان شروع سے بی جے پی کو انڈیا میں اپنا دشمن سمجھتے آئے ہیں۔ تین برس قبل ، جب سے اس پارٹی نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے جی پی نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ انہیں خوش کرنے کے لیے کبھی کوئی کام کیا ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں موب لنچنگ کے ذریعے گائے اور چوپایوں کا ٹرانسپورٹ کرنے والے غریب مسلم ٹرک ڈرئیوروں پر تشدد ہوتا رہا ہے ۔ جو لوگ ظلم کر رہے ہیں ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی آزادی مل گئی ہے کیوں کہ حکومت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہے نہ سرکار ان کی خیر خواہ ہے۔ موب لنچنگ اور اس جیسے دیگر واقعات کو دیکھ کر مسلمان واقعی اس پارٹی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع یہ پارٹی نہیں بلکہ خواتین اور تین طلاق پر بنائے گئے قانون پر اپنا موقف بتانا ہے، اس لیے میں حکومت میں بیٹھی پارٹی اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کیے بغیراس موضوع پر اپنے خیال کا اظہار کر رہا ہوں۔

پچھلے چار پانچ مہینوں سے طلاق پر زور و شور سےہمارے ملک میں بحثیں ہو رہی ہیں۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اس لیے نیوز پروگرام میں کانگریس و بی جے پی ممبران، مسلم رہنما، اور عورتوں کی نمائندگی کرنے والی غیر سرکاری اداروں کی خواتین کے درمیان بحثیں نہیں دیکھ پاتا۔ لیکن کبھی کبھار میں فرصت میں رہوں اور کوئی خبر نظر آ جائے تو یوٹیوب پر ایسی بحثیں دیکھ لیتا ہوں۔

سچ کہوں تو مجھے ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ واقعی زیادتی ہوتی نظر آتی ہے۔ میں صرف مسلم عورتوں کی بات نہیں کر رہا، عورت چاہے کسی بھی مذہب کی ہو ، انہیں ہمیشہ سے یہاں تکالیف سہنی پڑی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم دیگر مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے ۔ ہماری موجودہ صورتحال میں مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں۔

تین طلاقیں شادی شدہ مسلم خواتین کے گلے کے سامنے چھری کے جیسے ہمیشہ لٹکتی رہی ہیں۔ عورتیں بس اسی لیے خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں ان کا شوہر کسی بات پر غصے میں انہیں طلاق نہ دے دے۔مجھے یاد ہے ،جب میں نے پہلی دفعہ "نکاح" فلم کو دیکھا تھا۔ وہ طلاق کا منظر میری یادداشت میں اس طرح قید ہوا ہے کہ فلم کا وہ ڈائلاگ اب بھی یاد آجائے تو میں سہم جاتا ہوں۔ پتا نہیں ایسی اتھاریٹی شوہر کو کس نے دی ہے کہ عورت کو طلاق دے کر یوں بُری طرح گھر سے بے دخل کر دے۔

میں نے گزشتہ دنوں تین طلاق کی تاریخ جاننے کے لیے کچھ مطالعہ کیا ۔ سپریم کورٹ کی شاہرہ بانو اور دیگر تین کیس کی فائل میں مختلف جگہوں میں تین طرح کے طلاقوں کا ذکر ہوا ہے۔ طلاقِ احسن، طلاق ِحسن اور طلاقِ بدعت۔ میں نے مذہبی کتابوں کی طرف رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے کبھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا ۔ مسلمانوں کے چار بڑے مذاہب میں احناف کے پاس تین طلاق ایک وقت میں واقع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مسلم اکثریت حنفی مذہب کے مقلدہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ احناف میں کس بنیاد پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے۔ میں نے یہ سنا ہے کہ صحابی رسول حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں تین طلاقوں کی ابتدا ہوئی ۔ سپریم کورٹ اکٹھی طلاقوں کو طلاقِ بدعت شاید اسی لیے کہتی ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے زمانے کے بعد مجلس کی تین طلاقیں وجود میں آئیں ۔اکثر احناف تین طلاق کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جاری ہونے کی وجہ سے اب بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ بہر حال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا ہے کہ کس نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔

انڈیا میں تین طلاق کے نئے قانون کے تحت شوہر اگر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیتا ہے تو اسے جرمانے کے ساتھ تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ اگر نئے قانون کے تحت طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو شوہر کو کس بنیاد پر سزا دے رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شوہر کے ہاتھ میں چاقو ہے اور اس نے غصے میں بیوی کے پیٹ میں ڈال دیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ چاقو نقلی تھا ۔ عورت کی موت واقع نہ ہوئی ۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ شوہر مجرم نہیں ہے۔ اس نے جرم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس کو سز ا دی جا رہی ہے ۔

کچھ لوگ تین طلاق دینے والےمرد پر ضرورت سے زیادہ رحم کھا رہے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہو کہ عورت اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے ۔جھوٹی گواہی دے کر شوہر کو مجرم ثابت کر سکتی ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے ، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت کبھی اپنے شوہر پر جھوٹا الزام لگا کر یوں نہیں پھنسائے گی۔ ان کی فطرت میں رحم دلی ہوتی ہے۔ عورت کو محبت کرنے والے شوہر کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کا خیال رکھ سکے ۔ مرد چاہے کتنا ہی بُرا شخص کیوں نہ ہو ، اگر اپنی بیوی سے محبت سے پیش آئے تو بیوی کبھی شوہر کو غیر ضروری طور پر پھنسانے کا سوچے گی بھی نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض عورتیں صرف دولت چاہتی ہیں اور وہ شوہر سے محبت نہیں کر سکتی ، پیسہ جائیداد کی لالچ میں یا کسی دوسری وجہ سے مرد کو ایسے قانون کے سہارے پھنسا سکتی ہیں تو میرا خیال ہے یہ سب باتیں باطل ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ سب عورتیں محفوظ عنی الخطا ہیں یا صرف مرد ہی بُرا ہوتا ہے۔ بیوی شوہر سے ٹھیک سے پیش نہیں آ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کہیں نہ کہیں بیوی کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ انہیں پیار سے سمجھا کر پوچھنے سے تمام مسائل کر حل ممکن ہے۔ بہر حال میرا موضوع میاں بیوی کے تعلقات نہیں، بلکہ شوہر کا ظالمانہ رویہ اور طلاق کا غلط استعمال ہے۔ ایسے مرد حضرات جو اپنی بیوی کو تین طلاقوں کی دھمکی دیتے ہیں اب انہیں اچھی طرح پتہ چل جائے گا کہ بیوی سے غلط پیش آنے کا کیا انجام ہوگا۔

کچھ احباب کا یہ بھی خیال ہے کہ اب شوہر تین طلاق کی سزا کے ڈر سے طلاق نہیں دے سکے گا تو جب تک بیوی کے ساتھ ہوگا ، مسلسل اس پر ظلم کرتا رہے گا۔ لیکن اس کی بھی گنجائش زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ قانون میں ڈومسٹک وائلنس(گھریلو ظلم) کے خلاف قانون کے تحت عورت اپنی شکایت کسی بھی تھانے میں درج کرا سکتی ہے۔ ایسے ظاہم شوہر کو پھر پولیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قصہ مختصریہ ہے کہ انڈیا میں خواتین کو اب مرد کے تین طلاق کےسائے تلے جینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مسلم ومن پروٹکشن بِل 2017 خواتین کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس نئے قانون کو مسلمانوں کے خلاف کسی پارٹی کی سازش نہیں سمجھنی چاہیے ۔ سپریم کورٹ اس پارٹی کے اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ پہلے سے اس قانون کو منظور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اب جا کر منظوری ملی ہے۔
سوئے اتفاق، آپ کی حالیہ رپورٹ مسترد کر دی گئی ہے: 'بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!' لڑی کا مراسلہ - اس موضوع پر تمام گفتگو ایک جگہ ہی ہو تو مناسب ہے۔

یہ میرا آرٹیکل میں نے خبروں میں شامل نہیں کیا تھا. میں نے اپنے آرٹیکل کے لیے علیحدہ لڑی کا تقاضہ کیا ہے. انتظامیہ چاہے تو اسے علیحدہ لڑی بنا کر مقفل کر دے. لیکن مجھے اس کے لیے علیحدہ لڑی چاہیے.
 

محمدظہیر

محفلین
کیا کوئی سننے والے نہیں ہیں اِدھر؟
محمد تابش صدیقی بھائی آپ بھی ہماری گزارش نظر انداز کر رہے ہیں دیکھ کر اچھا نہیں لگا.
گزارش ہے کہ اس تحریر کی اصل کاپی جہاں تھی وہیں رکھ دیں. میں نہیں چاہتا کہ اس لمبی بحث میں میرا آرٹیکل کہیں کھو جائے. شکریہ.
محمد تابش صدیقی
 

ہادیہ

محفلین
کیا کوئی سننے والے نہیں ہیں اِدھر؟
محمد تابش صدیقی بھائی آپ بھی ہماری گزارش نظر انداز کر رہے ہیں دیکھ کر اچھا نہیں لگا.
مدیران کی شیکایت کس کو لگانی چاہیے؟؟؟:question:
سوال آپ کا بھی ٹھیک نہیں۔۔ یہاں سننے والے واقعی کوئی نہیں صرف "دیکھنے" اور "پڑھے" والے ہیں۔۔:D:p
 
کچھ احباب کا یہ بھی خیال ہے کہ اب شوہر تین طلاق کی سزا کے ڈر سے طلاق نہیں دے سکے گا تو جب تک بیوی کے ساتھ ہوگا ، مسلسل اس پر ظلم کرتا رہے گا۔ لیکن اس کی بھی گنجائش زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ قانون میں ڈومسٹک وائلنس(گھریلو ظلم) کے خلاف قانون کے تحت عورت اپنی شکایت کسی بھی تھانے میں درج کرا سکتی ہے۔ ایسے ظاہم شوہر کو پھر پولیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قصہ مختصریہ ہے کہ انڈیا میں خواتین کو اب مرد کے تین طلاق کےسائے تلے جینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مسلم ومن پروٹکشن بِل 2017 خواتین کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس نئے قانون کو مسلمانوں کے خلاف کسی پارٹی کی سازش نہیں سمجھنی چاہیے ۔ سپریم کورٹ اس پارٹی کے اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ پہلے سے اس قانون کو منظور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اب جا کر منظوری ملی ہے۔
یہ تو بہت اچھا قدم ہے۔ یعنی سیکولر انڈیا زندہ باد!
 
صرف آپ کے بی جے پی والے جملے پر کچھ تبصرہ: اس کی وجہ یہ ہے کہ بھاج پا نے کامیابی سے polarization کی پالیسی اپنائی ہے۔ ہندوستانی مسلمان شروع ہی سے "مسلم ووٹ بینک" کی سیاست کا شکار تھے، سیکولر اور سو کالڈ سیکولر جماعتوں کو مسلم ووٹ بینک کے لیے مسلمانوں کو خوش رکھنا پڑتا تھا ۔ 2009ء میں لوک سبھا کی مسلسل دوسری شکست کے بعد بی جے پی نے ایک واضح پالیسی اپنائی اور 2012ء کے گجرات انتخابات میں اس کو اپنا کرٹیسٹ کر لیا کہ تھوڑے سے مسلم ووٹ بینک کو چھوڑ کر کثیر ہندو ووٹ بینک سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے سو اب وہ کسی مسلمان امیدوار کو علامتی طور پر بھی اپنا ٹکٹ نہیں دیتے اور مسلسل جیت رہے ہیں۔
بہت اچھی سیاست ہے۔ اور ہونا بھی چاہئے۔ مسلمانان ہند نے اپنی 70 سالہ تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں بھی ڈیڑھ اینٹ کی سیاسی مسجد بنانا چاہتے ہیں۔ اسکا فائدہ ہندو اکثریت کو ہی ہوا ہے۔
 

سین خے

محفلین
آپ کی تجاویز عمدہ ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے پہلے نوجوانوں میں طلاق کی حیثیت، اس کے عواقب اور اس کے طریق کار سے متعلق شعور بھی بیدار کرنا بہت ضروری ہے

بالکل ہونی چاہئیے! یہ ہم سب کی سماجی اور انفرادی ذمہ داری ہے کہ ہم شعور پیدا کریں اور یہ صرف نوجوانوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیے بلکہ ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے دوست احباب اور خاندان میں ملاقاتوں میں اس کی اہمیت اجاگر کرتے رہیں۔۔ اگر ہم اپنے خاندان میں ایسے مسائل پیدا ہوتے دیکھیں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں ناکہ اسے اور بھڑکائیں۔ مرد مردوں کو سمجھائیں اور عورت عورتوں کو!

آپ درمیانے طبقہ کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گرد جو غریب طبقہ ہے اور وہاں جہالت بھی ہے۔ ان میں مردوں کی شادیاں آرام سے ہوجاتی ہیں۔ عورت واقعی بہت پستی ہے۔ میرے گھر میں جو خاتون کام کرتی ہے،ابھی نوجوان ہے،اسے طلاق ہوچکی ہے۔ ایک بچہ ہے اس کے پاس۔ وہ بیچاری محنت کر کے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پال رہی ہے۔ سابقہ خاوند نے دوسری شادی کر لی۔ خاتون کو بہت باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ کئی لوگ خوامخواہ الزامات بھی اس پہ لگاتے ہیں۔
سین خے کی یہ بات درست ہے۔

یہ رویہ صرف غریب طبقے تک محدود نہیں ہے۔ میرے خاندان میں بھی طلاقیں ہوئی ہیں اور کچھ جگہوں پر باپ ذمہ داری اٹھانے پر تیار نہیں تھا۔

یہ ہمارے معاشرے کا بھیانک روپ ہے جس سے ہم سب منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ اس پر توجہ دینے اور اس مسئلے کے حل کے لئے اقدامات اٹھانے کی انتہائی سخت ضرورت ہے۔
 

سین خے

محفلین
اس بل پر مسلم پرسنل لابورڈ کے ایک ذمہ دارمولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تحریر پیش کی جارہی ہے،جس میں بل پر تفصیلی تونہیں لیکن خاصی بحث موجود ہے :

بھائی صاحب آپ نے جو آرٹیکل شریک کیا ہے اس کے حوالے سے میرے کچھ سوالات ہیں پر پہلے میں آپ سے ایک اور سوال کرنا چاہتی ہوں۔

اگر شوہر بیوی کو ایک طلاق دے اور اس سے بعد میں رجوع نہ کرے تو کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے اور کیا عورت آزاد ہو جاتی ہے؟ کیا عورت اس کے بعد دوسری شادی کر سکتی ہے؟ یا پھر آسان الفاظ میں آپ کے نزدیک ایک طلاق کی کیا حیثیت ہے؟
 
گر شوہر بیوی کو ایک طلاق دے اور اس سے بعد میں رجوع نہ کرے تو کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے

جی ہاں بالکل طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

کیا عورت آزاد ہو جاتی ہے؟

جی ہاں عورت آزاد ہو جاتی ہے۔

کیا عورت اس کے بعد دوسری شادی کر سکتی ہے؟

جی ہاں ایک طلاق کے بعد بھی عورت دوسری شادی کرسکتی ہے،

آسان الفاظ میں آپ کے نزدیک ایک طلاق کی کیا حیثیت ہے؟

ایک طلاق دینے کے بعد اگر رجوع نا ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہیں۔ اور اگر دونوں فریق اپنی غلطی کا احساس کرلیں اورچاہیں تو باہمی رضامندی سے آپس میں بغیر کسی حلالہ کے نکاح کر سکتے ہیں۔ اور خدانخواستہ اگر دوبارہ بھی ان کی طلاق ہو جائے اور وقت مقررہ میں رجوع نا ہو تو پھر دوبارہ یہی آپشن موجود ہوتا ہے اور دوبارہ بھی بغیر حلالہ کے دونوں آپس میں شادی کر سکتے ہیں۔ اور اللہ نا کرے اگر تیسری دفع پھر مرد طلاق دے دے اوررجوع کاوقت بھی گذر جائے تو اب دونوں ایک دوسرے کے لئے بالکل حرام ہوگئے ۔ تیسری دفع نکاح نہیں کر سکتے تا آنکہ خاتون کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو جائے اور محض اتفاقاً وہ مطلقہ یا بیوہ ہو جائے۔
 
اگر شوہر بیوی کو ایک طلاق دے اور اس سے بعد میں رجوع نہ کرے تو کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے اور کیا عورت آزاد ہو جاتی ہے؟ کیا عورت اس کے بعد دوسری شادی کر سکتی ہے؟ یا پھر آسان الفاظ میں آپ کے نزدیک ایک طلاق کی کیا حیثیت ہے؟
بی بی اصل مسئلہ اسلامی طلاق کے ایک، دو یا تین دفعہ دینے کا نہیں بلکہ اسکا خالی زبان سے دینا ہے۔ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ زبانی کلامی طلاق کی قانوناً کوئی حیثیت نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں اس قسم کے مضحکہ خیز مسائل کا سامنا نہیں ہے۔
 

سین خے

محفلین
جی ہاں بالکل طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

جی ہاں عورت آزاد ہو جاتی ہے۔

جی ہاں ایک طلاق کے بعد بھی عورت دوسری شادی کرسکتی ہے،

ایک طلاق دینے کے بعد اگر رجوع نا ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہیں۔ اور اگر دونوں فریق اپنی غلطی کا احساس کرلیں اورچاہیں تو باہمی رضامندی سے آپس میں بغیر کسی حلالہ کے نکاح کر سکتے ہیں۔ اور خدانخواستہ اگر دوبارہ بھی ان کی طلاق ہو جائے اور وقت مقررہ میں رجوع نا ہو تو پھر دوبارہ یہی آپشن موجود ہوتا ہے اور دوبارہ بھی بغیر حلالہ کے دونوں آپس میں شادی کر سکتے ہیں۔ اور اللہ نا کرے اگر تیسری دفع پھر مرد طلاق دے دے اوررجوع کاوقت بھی گذر جائے تو اب دونوں ایک دوسرے کے لئے بالکل حرام ہوگئے ۔ تیسری دفع نکاح نہیں کر سکتے تا آنکہ خاتون کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو جائے اور محض اتفاقاً وہ مطلقہ یا بیوہ ہو جائے۔

بہت شکریہ خالد محمود چوہدری بھائی۔ بس میں ذرا ابن جمال بھائی صاحب کا بھی جواب سننا چاہتی ہوں پھر ہی آگے سوالات کروں گی۔
 

ابن جمال

محفلین
بہت پہلے کی بات ہے کہ پاکستان فورم پر ایک صاحب نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ جتنا علماء کرام نے تین طلاق کے تین ہونے یاتین طلاق کے ایک ہونے پر بحث اورمناظرہ کیاہے،اگراتنی محبت طلاق کے قوانین واحکام سے ناواقف اورلاعلم افراد کو واقف کرانے پر صرف کرتے توشاید اس طرح کے معاملات اورمسائل -اگربالکلیہ ختم نہ ہوتے اوریہ ممکن بھی نہیں ہے-کافی حد تک کم ہوجاتے۔
یہاں پر کئی سارے مسائل ہیں ،اورمزید مسئلہ تب ہوتاہے جب کہ مسائل کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کردیاجاتاہے۔
(1) طلاق زبانی نہیں بلکہ تحریری ہونی چاہئے جیساکہ ایک صاحب کہہ رہے ہیں
(2) تین طلاق ہونی ہی نہیں چاہئے یااگرہونی چاہئے تو یکے بعد دیگرے ،ایک ساتھ نہیں ہونی چاہئے۔
(3) طلاق کیلئے قرآن میں جس طریقۂ کار کاذکر ہے -جسے تمام علماء پسندیدہ سمجھتے ہیں ضروری نہیں -اس کو ضروری قراردیاجائے اور اس طریقۂ کار سے گزرے بغیر جوطلاق دی جائے وہ معتبر نہ ہو۔
(4) طلاق عدالتی عمل کے بعد ہی قابل اعتبار قرارپائے۔
(5) طلاق کے بعد بھی شوہر کو بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے،تاوقتیکہ وہ دوسری شادی نہ کرلے وغیرذلک
ظاہرسی بات ہے کہ ہرمسئلہ الگ بحث کا متقاضی ہے، اگرمسائل کو ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط کردیاجائے توبحث کبھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتی-اورفورمز پر ہونے والی بحثوں کی تاریخ تویہی بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ بے نتیجہ رہی ہیں لیکن فورم کی تاریخ سے بھی ہم نے یہی سیکھاکہ کچھ نہیں سیکھا-
مسئلہ تب پیداہوتاہے جب ہم کعبہ اورکلیسا کے درمیان پھنسے ہوتے ہیں اورنہ کعبہ کے ہوتے ہیں اورنہ کلیسا کے بقول غالب
ایماں مجھے روکے ہے توکھینچے ہے مجھے
کعبہ میرے آگے ہے کلیسامیرے پیچھے​
ہم سیکولر قوانین اور شرعی قوانین کے درمیان پھنسے ہوتے ہیں اورآدھاتیتر اورآدھابٹیر بننے کے بعد جب ہماری بری درگت ہوتی ہے تو بجائے مسئلہ کے اصل پہلو سوچنے کے اوریکسو ہونے کے ہم شرعی قوانین واحکام پر ہی اپناغصہ اتارنے لگتے ہیں۔
سوال اگرتین طلاق کا بیک وقت دینے کا ہےتوامت اسلامیہ کی بڑی تعداد اسے قابل عمل مانتی ہے، اہل سنت والجماعت کے چار بڑے مکتب فکر حنفی،شافعی ،مالکی اورحنبلی اسے قابل عمل مانتے ہیں۔ اہل حدیث حضرات اورشیعہ حضرات اسے قابل عمل نہیں مانتے تو سوال صرف حنفیوں کا نہیں ہے۔علاوہ ازیں دلائل کی مضبوطی بھی اسی جانب کہ ایک وقت کی تین طلاقیں تین واقع ہوجاتی ہیں اور صحابہ وتابعین کااس پر تقریباًاجماع اوراتفاق ہے۔
رہ گئی یہ بات کہ خواتین کس سے فریاد کریں،اگرشرعی قوانین پورے نافذ ہوتے تو ایسی صورت حال میں ان خواتین کے نفقہ کی پوری ذمہ داری شریعت نے بیان کی ہے کہ کن حالات میں کون خواتین کے نفقہ کا ذمہ دار ہے؟لیکن چونکہ ہم آدھے ادھر اورآدھے ادھر ہیں، اس لئے تین طلاق کے بعد خواتین کے نان ونفقہ کا مسئلہ بڑابن جاتاہے،ورنہ اگر شرعی قوانین سول طورپر پورے کے پورے نافذ کردیئے جائیں تواس قسم کے تمام مسائل کا حل ہوجائے،بالخصوص پاکستان میں تویہ قطعاکوئی مشکل کام نہیں ہے۔
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ طلاق کی تین قسم ہے۔
طلاق رجعی
طلاق بائن
طلاق مغلظہ
طلاق رجعی میں ایک طلاق کے بعد عدت کے دوران شوہرچاہے تو رجوع کرسکتاہے اوراس صورت مین دوبارہ نکاح کی بھی ضرورت نہیں ۔
طلاق بائن میں طلاق واقع ہوجاتی ہے اور رجوع کرنے کیلئے دوبارہ نکاح کی ضرورت ہوگی
طلاق مغلظہ میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔والسلام
ایک طلاق دینے کے بعد عورت عدت گزار کر آزاد ہوجاتی ہے، اگراس درمیان شوہر اس طلاق سے رجوع کرنا چاہے تو بغیر نکاح کے رجوع ہوسکتاہے، بشرطیکہ یہ طلاق بائن نہ ہو۔
 

سین خے

محفلین
(۲) اس قانون کی روسے ایک طرف مرد کو تین سال کے لئے جیل بھیجا جائے گا اور دوسری طرف اس پر عورت اور اس کے بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی، یہ کھلا ہوا تضاد ہے ، جب وہ جیل میں ہوگا اور محنت و مزدوری نہیں کرے گا تو وہ عورت اور بچوں کی کفالت کس طرح کرے گا ؟ خاص طورپر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق دینے کے واقعات زیادہ تر کم تعلیم یافتہ ،غریب ، اور معمولی روزگار کے حامل لوگوں کے یہاں پیش آتے ہیں، جوبے چارے روزکماتے اورروزکھاتے ہیں ۔

یہاں میں پھر کہوں گی کہ ایسا صرف نچلے طبقے میں ہی نہیں ہوتا ہے۔ جہالت اور شعور کی کمی ہر جگہ اور ہر طبقے میں پائی جاتی ہے۔ درمیانے طبقے سے لے کر ایلیٹ کلاس تک لوگ کسی ایک انسان کے غصے اور غلط فیصلے کی وجہ سے ساری زندگی تکلیف اٹھاتے ہیں۔

(۷) اس طرح کے قوانین عورت کے لئے مشکلات پیدا کریں گے ، جو لوگ اپنی بیوی سے علاحدگی چاہیں گے اور ان کے لئے تین طلاق یا طلاق بائن کا راستہ بند ہوجائے گا ، وہ بیوی کو لٹکا کر رکھیں گے ، نہ اس کے حقوق ادا کریں گے اور نہ طلاق دیں گے ، ایسی معلقہ عورت کی صورتِ حال مطلقہ سے بھی بدتر ہوتی ہے ؛ کیوںکہ نہ وہ اپنے حقوق پاتی ہیں اور نہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد ہوتی ہیں۔

میں نے اسی ایک پوائینٹ کی وجہ سے سوال کیا تھا کہ ایک طلاق دینے پر کیا طلاق ہو جاتی ہے؟ ایسی بھلا کونسی صورت ہو سکتی ہے کہ جہاں ایک طلاق کی کوئی صورت باقی ہی نہ رہ جائے، علحیدگی ناممکن ہو اور عورت پستی رہ جائے؟

جب ایک طلاق سے علحیدگی ممکن ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ مردوں کو تعلیم دی جائے کہ ہر حال میں ایک طلاق دیں۔ اگر تھوڑے دنوں بعد اس شخص کو پچھتاوا ہو تو وہ کم از کم دوبارہ اس پر سوچ بچار تو کر سکتا ہے اور دوبارہ رجوع تو کر سکتا ہوگا نا!

طلاق حلال کاموں میں سب ناپسندیدہ عمل ہے۔ بے شک جائز ہے لیکن کیا اس کی کوشش نہیں کی جائے ایک ناپسندیدہ کام کم سے کم ہو۔

(۸) یہ تو ان لوگوں کے لئے ہے، جن کے دلوں میں کچھ نہ کچھ اللہ کا خوف ہے ، جن کو حلال و حرام کی فکر نہ ہو، وہ سوچیں گے کہ ساری مصیبت نکاح کرنے اور نکاح کے بعد طلاق دینے سے پیداہورہی ہے ؛ اس لئے نکاح ہی نہ کیا جائے ؛ بلکہ چوںکہ قانون بالغ مرد و عورت کو آپسی رضامندی سے ایک ساتھ زندگی گزارنے اور صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے ؛ اس لئے جب تک جس کے ساتھ موافقت رہے ،زندگی اس کے ساتھ گزاری جائے ،اور جب جی اُکتا جائے، نیا رفیق تلاش کرلیا جائے ، طلاق کو مشکل بنانا ان اہم اسباب میں سے ہے ، جن کی وجہ سے اس وقت مغربی ملکوں میں نکاح کی شرح گھٹتی جارہی ہے ، خاندانی نظام بکھرتا جارہا ہے اور اپنی پہچان سے محروم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ؛اس لئے حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے نام پر بننے والا یہ قانون اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے خود خواتین کے لئے نقصاندہ ہے ۔

مغرب میں نکاح سے اگر بچا جاتا ہے تو وہاں لوگوں کی ذہنیت کا مسئلہ ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کی ذہنی ہم آہنگی کو پہلے ٹیسٹ کرتے ہیں اور پھر ہی شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہاں پر ڈیورس حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ عدالتیں جلد فیصلہ کرتی ہیں۔ وہاں کوئی کیس نہیں لٹکتا۔

البتہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کے چند اہم نکات یہ ہوسکتے ہیں :
(۱) صرف ایک ساتھ تین طلاق دینے پر ایک مناسب اور متوازن سزا تجویز کی جائے، اور وہ سزا ایسی ہو جس سے مطلقہ عورت کو فائدہ ہو ۔

(۳) مہر اور نفقۂ عدت جلد سے جلد ادا کرایا جائے ۔

پہلے پوائنٹ سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ علماء کے نزدیک سزا کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے اور یہ کہ شریعت کی رو سے مناسب سزا جائز قرار دی جا سکتی ہے؟

ایک سوال اور ہے کیا مہر نکاح کے وقت پر ہی ادا کرنا زیادہ بہتر نہیں ہوتا؟؟؟
 
آخری تدوین:
بہتر ہے پر اکثر سارا مہر نکاح کے وقت موجود نہیں ہوتا۔ پریکٹیکل مسائل کی وجہ سے مہر کی دائیگی طلاق کیساتھ مشروط کی گئی ہے۔
مہر کا معاملہ نکاح کے وقت طے کیا جاتا ہے کہ مہر کب ادا کیا جائے گا نکاح کے وقت یا بعد میں۔
 
مہر کا معاملہ نکاح کے وقت طے کیا جاتا ہے کہ مہر کب ادا کیا جائے گا نکاح کے وقت یا بعد میں۔
اور زیادہ تر یہ کیفیت ہوتی ہے کہ کچھ نقدی اور زیورات کی صورت میں معجل دیا جاتا ہے، اور کچھ غیر معجل لکھ دیا جاتا ہے۔
 
Top