بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔

آپ میرے تمام مراسلے بغور پڑھئے، میں نے کبھی بھی لفظ مولوی نہیں استعمال کیا۔ 'ملاء ' لکھتا ہوں، جو کہ مشہور شعر 'دین ملاء فی سبیل اللہ فساد' سے لیا گیا ۔ ملاء ، ہولی کارپوریشن آف شریعت کا نمائندہ ہے جو سوچے سمجھے بغیر غیر منصفانہ نکات آگے بڑھاتا رہتا ہے۔ مولوی، ایک پڑھا لکھا، استاد محترم ہے، جو علم آگے بڑھاتا ہے اور منصفانہ سوچ کی تعمیر کرتا ہے۔

والسلام
 
جناب عالی :
میں نے اقتباس میں کچھ غلطیاں واضح کی تھیں یہ فونٹ کی غلطیاں نہیں ہیں جیسا کہ آپ دیکھیں
یا ایھا النبی کے شروع میں ی نہیں
اسکنوھن کے شروع میں الف نہیں
لینفق کے شروع میں ل نہیں
آئندہ کاپی پیسٹ میں خیال رکھوں گا، کہاں سے متن لیتا ہوں ، وہ فراہم کردیا ہے۔ یقیناً میرا مقصد قرآن حکیم میں تبدیلی نہیں۔ اس نادانستہ غلطی پر معذرت خواہ ہوں۔ اور اللہ تعالی سے معافی کا خواستگار۔
 

ربیع م

محفلین
یقیناً میرا مقصد قرآن حکیم میں تبدیلی نہیں۔
یقینا ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا سہواً ہوا ہے معاذ اللہ کوئی مسلمان ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.
فقط توجہ دلانا مقصد تھا.
دل آزاری پر معذرت خواہ ہوں
 
فاروق سرور خان ربیع م عبید انصاری اور سب محفلین کی خدمت میں ایک رائے پیش کر رہا ہوں اگر آپ سب کو مناسب لگے تو ضرور عمل کیجیے گا۔آپ حضرات اکثر دلائل کے لیے قرآن کریم کی آیات بمعہ ترجمہ مراسلوں میں نقل کرتے ہیں ، اگر قرآنی آیات کے بجائے صرف قرآن کریم کے پارے کا نام ،آیات نمبر اور ترجمہ پیش کریں تو زیادہ مناسب اور بہتر رہے گا اور عربی آیات کی تحریر میں غلطی ہونے کے امکانات کم ہوجائے گے۔آپ لوگوں ماشاء اللہ صاحب علم ہیں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔آپ حضرات کو جو بہتر لگے اس پر عمل کریں۔شکریہ
 
آخری تدوین:
محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔

اب آتے ہیں اصل مقدمے کی طرف۔ آپ کے سوالات مختصر۔
1۔ آپ کا خیال ہے کہ میری طرف ایک سوال کا جواب باقی ہے
2۔ آپ کا خیال ہے کہ قرآن حکیم میں طلاق کے بعدایک محترم خاتون کے ، نان نفقے اور رہائش کو شوہر کی وسعت کے مطابق ، کب تک جاری رکھا جائے۔

جواب:
سب سے پہلی بات یہ کہ میں کسی کو بھی نہیں سمجھا سکتا، البتہ ان آیات کا ریفرنس فراہم کرسکتا ہوں جو ہم سب کی سوچوں میں ارتقاء کا باعث بنیں

دوم میں آپ کے مراسلے سے یہ سمجھا ہوں کہ تین طلاق کی توپ مار کر ایک محترم خاتون کو نکال باہر کیا جائے، بچے رکھ لئے جائیں اور عدت کے بعد مکمل طور پر کسی بھی خرچے ، نان نفقے ، یا کسی بھی قسم کی مدد کی یہ خاتون اب حقدار نہیں ہیں۔

1۔ برادر محترم، پہلی بات کا جواب میں دے چکا ہوں، کہ اللہ تعالی کے فرمان قرآن الحکیم کے مطابق، نکاح کا مقصد یا تو نیکو کاری اور عفت شعاری ہے یا پھر سفاحت یا بدکاری اور شہوت رانی ہے۔ یہ فیصلہ آپ پر چھوڑا کہ نکاح مؤقت کس زمرہ میں آئے گا۔ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ جو شادی یعنی عقد النکاح مسلم ، عام طور پر کرتے ہیں، جس سے خاندان وجود میں آتے ہیں ، جس سے قومیں بنتی ہیں ، جس نگاح کی وجہ سے معیشیت کی تعمیر ہوتی ہے ، وہ نکاح ایک رات والا نکاح نہیں، بلکہ زندگی بھر اپنے بیوی بچوں کو محنت سے پالنے والا نکاح ہے۔
جبکہ متع، نکاح موقت، اور اسی قسم کے دوسرے نکاح جو مرد کو بدکاری اور شہوت رانی کی طرف لے جاتے ہیں ، اللہ تعالی نے اس قسم کے نکاح سے ایک سے زائید بار منع فرمایا ہے۔ یہی جواب میں ایک سے زائید بار دے چکا ہوں۔ پلیز پڑھئے اور سوچئے

2۔ آپ کے نکات کے جواب میں ہم سب کی سوچوں کے ارتقاء کے لئے ، آپ سے مؤدبانہ درج ذیل سوال ہے۔
میری آپ کے لئے آفر یہ ہے کہ آپ مجھ سے ایک سمجھوتہ کر لیجئے، اس ایگریمنٹ کی شرائط اس ایگریمنٹ سے بالکل مختلف نہیں ہیں جو آپ نے غیر منصفانہ طور پر، بعد از طلاق، پیش کئے ہیں۔

شرائط، آپ کے پیش کردہ نکات کی بنیاد پر، تمام عزت اور احترام کے ساتھ:
1۔ آپ زندگی بھر میرے لئے کام کریں گے، آپ کی تمام پیدا وار پر میرا حق ہوگا
2۔ آپ کبھی بھی اس ایگریمنٹ کو توڑ کر جا نہیں سکیں گے
3۔ معاوضہ میں آپ کو صرف روٹی اور کپڑا ، اور رہنے کی جگہ ملے گی۔
4۔ مجھے توقع ہے کہ یہ معاہدہ کوئی چالیس سال جاری رہے گا ، جس سے چالیس کروڑ ڈالر کی پیداوار ہوگی۔ آپ کا اس پر کم سے کم برتنے کی حد تک حق ہوگا، ملکیت نہیں ہوگی
5۔ آپ کو دن رات کسی بھی وقت ، کام کرنا پڑے گا، کپڑے دھونا، کھانا پکانا ، تیمار داری کرنا، اور دیگر تمام کام بھی آپ کے ذمے ہوں گے
6۔ مجھے حق ہوگا کہ آپ کو جب چاہوں تین بار ، الگ ہو ، کہہ کر بھگا دوں،
7۔ علیحدگی کی صورت میں آپ کو، رہائش پر، کمائی پر، پیدا وار پر اور کسی بھی منافع پر کوئی حق نہیں ہوگا۔ میرے تین بار بھاگانے پر آپ کو جانا ہی جانا ہے، تمام منافع، پیداوار، اثاثے میرے ۔

منظور ہو تو فرمائیے ۔
میرا مقصد ، سوچ کے ارتقاء میں اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم سے مدد فراہم کرنا ہے،
برادر محترم قرآنی احکامات کی منصفانہ تشریح ، اللہ تعالی کےفرمان قرآن حکیم کے اپنے الفاظ میں بہت ہی واضح ہے، میں آپ کو ذاتی فرسٹ ہینڈ تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ اس کتاب کی لیگل لینگویج، یعنی قانونی زبان اتنی اعلی ہے کہ بڑے سے بڑا قانون دان بھی ایسا نہیں لکھ سکتا، خاص طور پر اس طرح کہ معمولی علم والے کو کہانی لگے اور قانون دان اپنے آپ کو اس کے آگے بے بس پائے۔

دراز نفسی مقصود نہیں، کہ اب بھی اس کتاب کا طالب علم ہوں،

والسلام
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
1۔ آپ زندگی بھر میرے لئے کام کریں گے، آپ کی تمام پیدا وار پر میرا حق ہوگا
2۔ آپ کبھی بھی اس ایگریمنٹ کو توڑ کر جا نہیں سکیں گے
3۔ معاوضہ میں آپ کو صرف روٹی اور کپڑا ، اور رہنے کی جگہ ملے گی۔
4۔ مجھے توقع ہے کہ یہ معاہدہ کوئی چالیس سال جاری رہے گا ، جس سے چالیس کروڑ ڈالر کی پیداوار ہوگی۔ آپ کا اس پر کم سے کم برتنے کی حد تک حق ہوگا، ملکیت نہیں ہوگی
5۔ آپ کو دن رات کسی بھی وقت ، کام کرنا پڑے گا، کپڑے دھونا، کھانا پکانا ، تیمار داری کرنا، اور دیگر تمام کام بھی آپ کے ذمے ہوں گے
6۔ مجھے حق ہوگا کہ آپ کو جب چاہوں تین بار ، الگ ہو ، کہہ کر بھگا دوں،
7۔ علیحدگی کی صورت میں آپ کو، رہائش پر، کمائی پر، پیدا وار پر اور کسی بھی منافع پر کوئی حق نہیں ہوگا۔ میرے تین بار بھاگانے پر آپ کو جانا ہی جانا ہے، تمام منافع، پیداوار، اثاثے میرے ۔
یہ تمام تر نکات نکاح کے معاہدے کے بالکل برعکس ہیں
آپ کہتے ہیں کہ کبھی بھی اس ایگریمنٹ کو توڑ کر نہیں جا سکتے جبکہ عورت کے پاس خلع کا حق محفوظ ہے.
جب چاہوں بھگا دوں والی بات بھی خوب کہی کئی صورتوں میں طلاق حرام درجہ تک بھی پہنچ جاتی ہے.
حق مہر کی صورت میں عورت پورے خزانہ تک بھی لکھوا سکتی ہے.
پیداوار اگر بچوں کی صورت میں ہے تو اس پر میاں بیوی دونوں کا حق ہے بلکہ شریعت میں ماں زیادہ حق دار ہے
بہرحال بہت سے نکات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے
طوالت میں نہیں جانا چاہتا. البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جن دلائل کو کھینچ تان کر آپ ملا کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے تھے ان سے آپ خود ہی دستبردار ہو گئے
ان دلائل کی رو سے واضح کیجئے کہ خاوند ہمیشہ کیلئے نان و نفقہ یا رہائش کا مکلف ہے.
ہاں اگر کسی کو زیادہ ہی خدشہ ہے تو وہ نکاح کی شرائط میں لکھوا لے یہ سب باتیں.
 

ربیع م

محفلین
ملاء ' لکھتا ہوں، جو کہ مشہور شعر 'دین ملاء فی سبیل اللہ فساد' سے لیا گیا ۔
بات مولوی یا ملا کی نہیں ہے اور نہ ہی اقبال کا یہ شعر کوئی ناقابل نسخ حجت ہے.
بات اس روئیے کی ہے کہ ہر بات کی تان ایک طبقہ پر بلاوجہ محض تعصب میں ٹوٹتی ہے.
اگر اس طبقہ میں مجموعی طور پر یہ خرابی موجود ہے تو اس کا مدلل رد کیجئے بجائے خوامخواہ کی ادھر ادھر کی ہانکنے کے
میں ایک بار پھر واضح کر دوں کہ مجھے مولوی یا ملا کی بے جا حمایت کا قطعی شوق نہیں اگر آپ کسی مضبوط بنیاد پر کتاب و سنت کی رو سے ان کی غلطی کا رد کرتے ہیں جو واقعی ان میں پائی جاتی ہے تو مجھے اس طبقہ کی مخالفت میں اپنے سے آگے پائیں گے.
 
ان دلائل کی رو سے واضح کیجئے کہ خاوند ہمیشہ کیلئے نان و نفقہ یا رہائش کا مکلف ہے.
سورۃ طلاق سورۃ نمبر 65 کی پہلی دس آیات ، طلاق دینے، طلاق کی مدت اور طلاق کے بعد محترم خاتون، کے لئے طلاق کی تکمیل کی مدت کا تعین کرتی ہیں۔ اور لامتناہی، مالی اعانت شوہر پر فرض کرتی ہیں۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ ان آیات کی موجودگی میں اور ابھی تازہ تر حوالے ککے بعد مجھ سے شابقہ شوہر کے فراءض کے بارے میں ایسا سال پوچھ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ملاء کی ایک زبردست کامیابی ہے کہ اس نے مسلمان کے ذہن کو ماؤف کردیا ہے۔

یقین کیجئے کہ میں آپ ک نہیں سمجھا سکتا، ہم سب کو ملاء کے سحر سے آزاد ہ کر قران کریم پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوال تو 1400 سال سے کیا جارہا ہے کہ مرد کی طلاق کے بعد ذمہ داری کب تک ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ملاء پرستی معصوم خواتین پر زندگی تنگ کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔ اس کا علاج بھی قرآن حکیم نے فراہم کردیا ہے کہ عورت کا مہر کے تعین ، مرد کی آئندہ 10 سال کی آمدنی کے برابر رکھا جائے۔

آپ سے پوچھا کہ معجل اور غیر معجل مہر کا حکم ہم کوو قرآن سے کہاں ملتا ہے۔ آپ نے جواباً درج ذیل آیت پیش کی، یہ آیت معجل اور غیر معجل مہر کا تعین نہیں کرتی بلکہ مہر کب اور کتنا ادا کیا جانا ہے اس امر کا تعین کیا جارہا ہے۔
آیہئ اس آیت کو دیکھتے ہیں:

2:236 لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

یہاں حکم دیا جارہا ہے ان خواتین کے بارے میں جن کو مرد نے 'چھوا' نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے یہاں لفظ 'نکاح ' نہیں استعمال کیا ہے بلکہ لفظ ہے ۔۔۔ 'تَمَسُّوهُنُّ' صاف اور واضح۔
تو جن عورتوں کو چھوا نہیں ان کو کچھ ساز و سامان دے دو۔ لیکن اگر صرف 'چھو' بھی لیا یعنی انگوٹھی پہنا دی یا ہاتھ ملالیا تو مہر قابل ادائیگی ہو گیا۔ جی۔ یہ آیت صرف اور صرف اس امر کا تعین کرتی ہے۔

تو معجل اور غیر معجل یعنی مہر کی کچھ ادائیگی چھونے پر یعنی معجل یا فوری ادائیگی اور مزید یہ کہ بعد میں آرام آرام سے مرد ادائیگی کرتا رہے ، تو یہ ہوا غیر معجل ۔ ایک عجلت سے ادا کرنا ہے اور دوسرے حصے میں کوئی عجلت نہیں ۔ اس کے لئے اللہ تعالی کا فرمان قرآن کریم میں بہت ہی اضح ہے، وہ ہم کو
سورۃ القصص کی آیت نمبر 27 اور 28 میں ملتی ہے۔

28:27 قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے

28:28 قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ وَاللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہے

یہ ہے مرد کی پیداوار میں سے معجل اور غیر معجل کے تعین کے بہترین مثال۔ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مہر معجل کچھ نہیں ، لیکن غیر معجل آٹھ سے دس سال کی خدمت ہے۔
ملاء اس ک شریعت موسوی کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ جبکہ یہ آیات قرآن حکیم کی ہیں، اور کسی طور بھی رد نہیں کی جاسکتی ہیں۔

جس کو سورۃ طلاق کی آبتدائی آیات سے یہ دلیل نہیں ملتی کہ طلاق یافتہ عورت کی مالی مدد اس وقت تک اس کے شوہر کا فرض ہے ، اس سے ہم دس سال کی مکمل آمدنی لکھوا سکتے ہیں یا پھر قانون بنا سکتے ہیں کہ طلاق کی صورت میں مرد کی دس سال کی آمدنی اس کی بیوی کا حق ہوگا، بچوں کا تمام خرچہ تو مرد کی ذمہ داری ہے ہی۔ ۔ کہ یہ حدود اللہ ہیں،

سورۃ طلاق کی وہ آیات جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ طلاق ہافتہ عورت کا یہ حق ہے کہ جب تک اس کا کوئی انتظام نا ہوجائے، اس کا شوہر اس کی کفالت کرے گا۔ اور اس کو اس کے گھر سے نہیں نکالے گا۔

سورۃ طلاق
آیت 1: اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔

آیت 6 ۔ تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

آیت 7 صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔

برادر محترم، میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ دلائیل کسی بھی ملاء کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مہر میں مرد کی دس سال کی آمدنی لکھی جائے، تاکہ طلاق یافتہ عورت اس آمدنی سے اپنا گذر بسر کرسکے، ہم اس پر تو متفق ہیں ہی کہ بچوںکا تمام کا تمام خرچہ باپ کے ذمے ہے۔ جو نہیں مانتا کہ طلاق کے بعد ، بیوی کا تمام خرچہ ، کھانا پینا، گھر کا کرایہ ، اور کسی بھی قسم کے دوسرے اخراجات شابقہ شوہر کا ذمہ ہیں، اس سے ہم دس سال کی آمدنی لکھوا سکتے ہیں یا قانون بنا سکتے ہیں کہ مہر غیر معجل ، شوہر کی دس سال کی آمدنی ہوگا۔

والسلام
 
فاروق سرور خان ربیع م عبید انصاری اور سب محفلین کی خدمت میں ایک رائے پیش کر رہا ہوں اگر آپ سب کو مناسب لگے تو ضرور عمل کیجیے گا۔آپ حضرات اکثر دلائل کے لیے قرآن کریم کی آیات بمعہ ترجمہ مراسلوں میں نقل کرتے ہیں ، اگر قرآنی آیات کے بجائے صرف قرآن کریم کے پارے کا نام ،آیات نمبر اور ترجمہ پیش کریں تو زیادہ مناسب اور بہتر رہے گا اور عربی آیات کی تحریر میں غلطی ہونے کے امکانات کم ہوجائے گے۔آپ لوگوں ماشاء اللہ صاحب علم ہیں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔آپ حضرات کو جو بہتر لگے اس پر عمل کریں۔شکریہ

برادر محترم، آپ نے بہت ہی اچھا مشورہ دیا ہے۔ میرا ارداہ صرف سورۃ نمبر آیت نمبر مع اردو ترجمے کے ساتھ حوالے فرہم کرنے کا ہے۔ البتہ کبھی یہ ضرورت پڑ جاتی ہے کہ اصل عربی متن کو پیش کیا جائے۔ اس کی مثال میرا سابقہ مراسلہ ہے، سورۃ البقرۃ ایت 236 کا اصل متن اس لئے ضروری تھا کہ اس میں اللہ تعالی نے مہر کی ادائیگی کی شرط ' ثھونا ' رکھی ہے ، 'نکاح ' نہیں ، جو لوگ یہاں عربی جانتے ہیں وہ یہ فرق دیکھ سکتے ہیں ۔ 'مس ' کرنے یعنی چھونے کا لفظ اردوو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ۔ اور نکاح کے معانی ہم سب ہی جانتے ہیں۔ اسی لفظ سے نکاح نامہ یا عقد النکاح کے معاہدے کے کاغزات بنتے ہیں۔

آپ کی رائے کا بہت شکریہ
 

ربیع م

محفلین
سورۃ طلاق سورۃ نمبر 65 کی پہلی دس آیات ، طلاق دینے، طلاق کی مدت اور طلاق کے بعد محترم خاتون، کے لئے طلاق کی تکمیل کی مدت کا تعین کرتی ہیں۔ اور لامتناہی، مالی اعانت شوہر پر فرض کرتی ہیں۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ ان آیات کی موجودگی میں اور ابھی تازہ تر حوالے ککے بعد مجھ سے شابقہ شوہر کے فراءض کے بارے میں ایسا سال پوچھ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ملاء کی ایک زبردست کامیابی ہے کہ اس نے مسلمان کے ذہن کو ماؤف کردیا ہے۔

یقین کیجئے کہ میں آپ ک نہیں سمجھا سکتا، ہم سب کو ملاء کے سحر سے آزاد ہ کر قران کریم پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوال تو 1400 سال سے کیا جارہا ہے کہ مرد کی طلاق کے بعد ذمہ داری کب تک ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ملاء پرستی معصوم خواتین پر زندگی تنگ کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔ اس کا علاج بھی قرآن حکیم نے فراہم کردیا ہے کہ عورت کا مہر کے تعین ، مرد کی آئندہ 10 سال کی آمدنی کے برابر رکھا جائے۔

آپ سے پوچھا کہ معجل اور غیر معجل مہر کا حکم ہم کوو قرآن سے کہاں ملتا ہے۔ آپ نے جواباً درج ذیل آیت پیش کی، یہ آیت معجل اور غیر معجل مہر کا تعین نہیں کرتی بلکہ مہر کب اور کتنا ادا کیا جانا ہے اس امر کا تعین کیا جارہا ہے۔
آیہئ اس آیت کو دیکھتے ہیں:

2:236 لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

یہاں حکم دیا جارہا ہے ان خواتین کے بارے میں جن کو مرد نے 'چھوا' نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے یہاں لفظ 'نکاح ' نہیں استعمال کیا ہے بلکہ لفظ ہے ۔۔۔ 'تَمَسُّوهُنُّ' صاف اور واضح۔
تو جن عورتوں کو چھوا نہیں ان کو کچھ ساز و سامان دے دو۔ لیکن اگر صرف 'چھو' بھی لیا یعنی انگوٹھی پہنا دی یا ہاتھ ملالیا تو مہر قابل ادائیگی ہو گیا۔ جی۔ یہ آیت صرف اور صرف اس امر کا تعین کرتی ہے۔

تو معجل اور غیر معجل یعنی مہر کی کچھ ادائیگی چھونے پر یعنی معجل یا فوری ادائیگی اور مزید یہ کہ بعد میں آرام آرام سے مرد ادائیگی کرتا رہے ، تو یہ ہوا غیر معجل ۔ ایک عجلت سے ادا کرنا ہے اور دوسرے حصے میں کوئی عجلت نہیں ۔ اس کے لئے اللہ تعالی کا فرمان قرآن کریم میں بہت ہی اضح ہے، وہ ہم کو
سورۃ القصص کی آیت نمبر 27 اور 28 میں ملتی ہے۔

28:27 قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے

28:28 قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ وَاللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہے

یہ ہے مرد کی پیداوار میں سے معجل اور غیر معجل کے تعین کے بہترین مثال۔ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مہر معجل کچھ نہیں ، لیکن غیر معجل آٹھ سے دس سال کی خدمت ہے۔
ملاء اس ک شریعت موسوی کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ جبکہ یہ آیات قرآن حکیم کی ہیں، اور کسی طور بھی رد نہیں کی جاسکتی ہیں۔

جس کو سورۃ طلاق کی آبتدائی آیات سے یہ دلیل نہیں ملتی کہ طلاق یافتہ عورت کی مالی مدد اس وقت تک اس کے شوہر کا فرض ہے ، اس سے ہم دس سال کی مکمل آمدنی لکھوا سکتے ہیں یا پھر قانون بنا سکتے ہیں کہ طلاق کی صورت میں مرد کی دس سال کی آمدنی اس کی بیوی کا حق ہوگا، بچوں کا تمام خرچہ تو مرد کی ذمہ داری ہے ہی۔ ۔ کہ یہ حدود اللہ ہیں،

سورۃ طلاق کی وہ آیات جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ طلاق ہافتہ عورت کا یہ حق ہے کہ جب تک اس کا کوئی انتظام نا ہوجائے، اس کا شوہر اس کی کفالت کرے گا۔ اور اس کو اس کے گھر سے نہیں نکالے گا۔

سورۃ طلاق
آیت 1: اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔

آیت 6 ۔ تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

آیت 7 صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔

برادر محترم، میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ دلائیل کسی بھی ملاء کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مہر میں مرد کی دس سال کی آمدنی لکھی جائے، تاکہ طلاق یافتہ عورت اس آمدنی سے اپنا گذر بسر کرسکے، ہم اس پر تو متفق ہیں ہی کہ بچوںکا تمام کا تمام خرچہ باپ کے ذمے ہے۔ جو نہیں مانتا کہ طلاق کے بعد ، بیوی کا تمام خرچہ ، کھانا پینا، گھر کا کرایہ ، اور کسی بھی قسم کے دوسرے اخراجات شابقہ شوہر کا ذمہ ہیں، اس سے ہم دس سال کی آمدنی لکھوا سکتے ہیں یا قانون بنا سکتے ہیں کہ مہر غیر معجل ، شوہر کی دس سال کی آمدنی ہوگا۔

والسلام
فاروق سرور صاحب آپ نے وہی پرانی باتیں کی جن کا میں جواب دے چکا ہوں اور جن کو آپ نے درخورِ اعتنا نہیں جانا
معنی کی ہیر پھیر جتنی قرآنسٹ کرتے ہیں کوئی اور نہیں کرتا اس بات پر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا
جناب عالی
اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو
کیا منگنی کے بعد بھی طلاق ہوتی ہے؟
یہاں طلاق کا لفظ ہی تمسوھن کی وضاحت کر رہا ہے جس سے مرضی جا کر پوچھ لیں.
اصطلاحات کا پورا ایک پس منظر تعریف اور شرائط ہوتی ہیں یہ کسی نتھو خیرے کی کتاب نہیں کہ یہاں بے معنی طلاق کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے.

موسی علیہ السلام کا واقعہ یہاں اس لیے حجت نہیں کیونکہ یہ فریقین کے درمیان عقد طے پاتے ہوئے باہمی رضامندی سے طے شدہ امر تھا اگر آج بھی ایسا ہوتا ہے تو اس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں
باقی!

اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔

· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔

· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟

· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔

· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟

· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں

· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟
اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !

اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔

اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔

اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟
میرے ان تمام تر نکات کا تسلی بخش جواب آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے ورنہ ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ" میں نا مانوں" والی بات ہے.
 
فاروق سرور صاحب آپ نے وہی پرانی باتیں کی جن کا میں جواب دے چکا ہوں اور جن کو آپ نے درخورِ اعتنا نہیں جانا
معنی کی ہیر پھیر جتنی قرآنسٹ کرتے ہیں کوئی اور نہیں کرتا اس بات پر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا
جناب عالی

کیا منگنی کے بعد بھی طلاق ہوتی ہے؟
یہاں طلاق کا لفظ ہی تمسوھن کی وضاحت کر رہا ہے جس سے مرضی جا کر پوچھ لیں.
اصطلاحات کا پورا ایک پس منظر تعریف اور شرائط ہوتی ہیں یہ کسی نتھو خیرے کی کتاب نہیں کہ یہاں بے معنی طلاق کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے.

موسی علیہ السلام کا واقعہ یہاں اس لیے حجت نہیں کیونکہ یہ فریقین کے درمیان عقد طے پاتے ہوئے باہمی رضامندی سے طے شدہ امر تھا اگر آج بھی ایسا ہوتا ہے تو اس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں
باقی!



میرے ان تمام تر نکات کا تسلی بخش جواب آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے ورنہ ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ" میں نا مانوں" والی بات ہے.

صاحب بہتر ہے کہ آپ سوچیں اور پڑھیں ۔ ان آیات میں صاف اور واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ مرد کی ذمہ داری کیا ہے۔ آُ نا منئے تو اس کا علاج باہمی معاہدے کی شکل میں دس سال کی خدمت کی صورت میں موجود ہے۔ طلاق نبام ہے ماہمی علیحدگی کا۔ منگنی یا ابتادئی بات چیت کی صورت میں بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں منگنیاں ٹوٹتی ہیں۔ یہ بھی طلاق ہے یعنی علیحدگی ہی ہے۔ اگر شادی کے معاہدے کے بعد، صرف چھو لیا تو طے شدہ مہر کی ادائیگی، اللہ کے فرمان کے مطابق ضروری ہے۔ ضروری ہے۔ چھونا شرط ہے مہر کی ادائیگی کے لئے۔ اگر نہیں چھوا تب بی کچھ نا کچھ دینا ہی ہے۔

ملاء 1400 سو سال سے نہیں مانے تو اب کیا مانیں گے بھائی؟

جب ظلم حد سے بڑ جاتا ہے تو سلطنت عباسیہ پر تاتاری آجاتے ہیں اور ان کتب کو دجلہ اور فرات میں بہا دیتے ہیں۔ جب یہ ظلم بڑھ جاتا ہے تو سلطنت مغلیہ کو تمام کرنے برطانوی بھیج دئے جاتے ہیں۔ کب یہی ظلم بڑھ جاتا ہے تو سلطنت عثمانیہ اسی طرح تاراج ہوجاتی ہے۔ یہ سب قرآن حکیم سے دوری اور ملاء گیری کا نتیجہ ہے۔ میں آُ کا بے حد شکر گذار ہں کہ آپ اپنی ہی کمزوریاں برسر عام لے آتے ہیں۔

میری سفارش ہے اسلامی نظریاتی کونسل سے کہ کسی معاہدے کی عدم موجودگی میں پیچھے چھوڑ دی جانے والی محترم خاتون کا کم از کم (ڈیفالٹ) مہر مرد کی دس سال کی کمائی ، منافع در منافع ہو۔ تاکہ ملاء کے اثر میں آئے ہوئے ایسے افراد اپنی ذمہ داری سے بھاگ نا سکیں۔


والسلام
 

ربیع م

محفلین
دنیا بھر میں منگنیاں ٹوٹتی ہیں۔ یہ بھی طلاق ہے یعنی علیحدگی ہی ہے۔
فاروق صاحب شریعت اسلامی میں منگنی کا تصور ہی نہیں ہے "خطبۃ" کا ذکر ملتا ہے جس کا مطلب ہے نکاح کا پیغام.
دوسری بات یہ کہ طلاق کی تعریف کیا ہے؟
 
فاروق صاحب شریعت اسلامی میں منگنی کا تصور ہی نہیں ہے "خطبۃ" کا ذکر ملتا ہے جس کا مطلب ہے نکاح کا پیغام.
دوسری بات یہ کہ طلاق کی تعریف کیا ہے؟

آپ کی آسانی کے لئے منگنی کا لفظ استعمال کیا تھا۔ بہت ہی سادہ بات ہے کہ اگر مرد نے پیغام دیا اور عورت نے ریجکٹ کردیا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ علیحدگی کسی نا کسی عہد کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ بات بہت ہی سادہ ہے، جو مرد ، اپنی بیی کاحق تسلیم نہیں کرتا، اس سے دس سال کی آمدنی لکھوائی جائے۔ سکون سے سوئے برادر محترم، میں اپنی والدہ کا مقدمہ ملاء کی نکتہ نظر سے لڑ رہا ہوں۔ اہک خاندان کی تباہی، ملک و قوم کی بنیادی اکائی، یعنی اٹامک یونٹ کی تباہی ہے۔ اگر ہم نے نیوکلیس اتنی آسانی سے تباہ کردیا کہ
مرد جب چاہے طلاق دے کر چھٹکارہ حاصل کرلے،
جب چاہے نکاح مؤقت یعنی ایک رات کا نکاح کرلے
اور کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے آزاد تو کس قسم کے معاشرے کی تعمیر کررہے ہیں؟
 
مزا آگیا پڑھ کر. منگنی بھی ایک طرح کی شادی ہی ہے اور اس میں بھی طلاق ہوتی ہے. شیطان پوری طرح کام کررہا ہے

منگنی کے بعد بریک اپ کیا ہوتا ہے؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان معصوم لڑکیوں پر کیا گزرتی ہے جن کی منگنیا ٹوٹ جاتی ہیں؟ دل توڑنے کی کوئی سزا نہیں ؟؟؟؟ :)

الفاظ ک ہیر پھیر دینے سے اللہ تعالی کا فرمان نہیۃں بدل جائے گا کہ اگر صرف پیغام دیا اور نہیں چھوا تو بھی کچھ نا کچھ دو۔ یہ مہر معجل کی مثال نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالی کا پیغام ہے کہ علیحدگی ہوئی تو کچھ نا کچھ دینا ہے چاہے چھوا بھی نا ہو۔ چھو لیا تو پورا مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ چاہے یہ چھونا ، صرف 'مس ' کرنے کی حد تک ہو۔ صاف اور واضح الفاظ۔ ۔۔ اللہ تعالی نے یہاں نکاح کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔ کیوں؟

اب ملاء اپنی ذاتی خوہشات کی تکمیل کے بہانے ڈھونڈتا رہے۔

ظلاق ، کیا ہے، آپ کی نظر میں؟

ملاء پرست نظریات کے حامل افراد سے سوال۔

آپ میں سے کتنے لوگ یہ پسند کریں گے کہ آپ کی بہنوں، بیٹیوں کی بار بار منگنی ہو، ان محترم خواتین کو چھا جائے اور پھر اس میں شامل مرد جب چاہے چھوڑ کر چلا کائے۔
آپ میں سے کتنے لوگ یہ پسند کریں گے کہ ان کی اپنے گھر کی خواتین کی ایک رات کی شادی ، نکاح مؤقت کے نام پر ہو اور ان کا شوہر بناء کسی ذمہ داری کو پورا کئے ہوئے چلا جائے ۔

کیا بات ہے کہ نا بچوں کی ذمہ داری ا، نا گھر کی ذمہ داری، نا ان کی بہبود کی ذمہ داری ؟ ی عباسی دور کی عیاشیاٰں کیا قرآنی احکامات کے مطابق ہیں؟۔

پھر آپ کو میں نے اتنا اچھا معاہدہ پیش کیا، ج اپ نے قبل نہیں کیا۔ لہذا اس معاہدہ کی آفر ختم۔ جب ایسا معاہدہ آپ کو قبول نہیں تو دوسرے افراد کو ہولی کارپوریشن آف شریعت سے ایسا ہی معاہدہ کیوں پیش کرتے ہیں ؟
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
اگر صرف پیغام دیا ا
قرآن میں معنوی تحریف
وہاں پیغام کا لفظ نہیں ہے طلاق کا لفظ ہے جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ نکاح ہو چکا ہے البتہ صحبت نہیں ہوئی
ظلاق ، کیا ہے، آپ کی نظر میں؟
یہ تو آپ بتائیں ہم تو نکاح کے بعد علیحدگی کو طلاق جانتے ہیں آپ کوئی نیا فلسفہ نکالنے والے تھے
آپ میں سے کتنے لوگ یہ پسند کریں گے کہ آپ کی بہنوں، بیٹیوں کی بار بار منگنی ہو، ان محترم خواتین کو چھا جائے اور پھر اس میں شامل مرد جب چاہے چھوڑ کر چلا کائے۔
ہم شریعت کی رو سے نکاح سے پہلے چھونا کسی صورت درست ہی نہیں جانتے آپ کا سوال ہی بے معنی ہے.
آپ میں سے کتنے لوگ یہ پسند کریں گے کہ ان کی اپنے گھر کی خواتین کی ایک رات کی شادی ، نکاح مؤقت کے نام پر ہو اور ان کا شوہر بناء کسی ذمہ داری کو پورا کئے ہوئے چلا جائے ۔
ہم موقت نکاح حلالہ نکاح کو غلط جانتے ہیں اور اس بارے میں اپنا موقف واضح طور پر پیچھے لکھ چکا ہوں لیکن آپ دلیل نہیں دے سکے اس کی حرمت پر
پھر آپ کو میں نے اتنا اچھا معاہدہ پیش کیا،
ہمیں آپ کا پیش کردہ معاہدہ نہیں بلکہ قرآن و سنت کا معاہدہ چاہیے.
 
قرآن میں معنوی تحریف وہاں پیغام کا لفظ نہیں ہے طلاق کا لفظ ہے جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ نکاح ہو چکا کے البتہ صحبت نہیں ہوئی

یہ تو آپ بتائیں ہم تو نکاح کے بعد علیحدگی کو طلاق جانتے ہیں آپ کوئی نیا فلسفہ نکالنے والے تھے

شریعت کی رو سے نکاح سے پہلے چھونا کسی صورت درست ہی نہیں جانتے آپ کا سوال ہی بے معنی ہے.

ہم موقت نکاح حلالہ نکاح کو غلط جانتے ہیں اور اس بارے میں اپنا موقف واضح طور پر پیچھے لکھ چکا ہوں لیکن آپ دلیل نہیں دے سکے اس کی حرمت پر

ہمیں آپ کا پیش کردہ معاہدہ نہیں بلکہ قرآن و سنت کا معاہدہ چاہیے.


آپ کی فراہم کردہ آیت مہر معجل اور غیر معجل کا تعین نہیں کرتی ہے صاحب۔ یہ آیت تعین کرتی ہے کہ مہر کب ادا کرنا ضروری ہو گیا۔ ملاء کبھی قرآن حکیم کو مانتا ہی نہیں، صرف حیلے بہانوں سے ادھر ادھر کی ہانکتا ہے۔
2:236 لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جب کہ انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور ان کے لیے کچھ مہر بھی مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ سامان دے دو وسعت والے پر اپنے قدر کے مطابق اور مفلس پر اپنے قدر کے مطابق سامان حسب دستور ہے نیکو کاروں پر یہ حق ہے

کیا ُآ کے خیال میں بناء مہر مقرر کئے عقد النکاح مکمل ہوجاتا ہے؟ کیا مہر نکاح کی شرط ہے ؟ یا آپ کے خیال میں نہیں ؟ تو مہر مقرر نہیں ہوا، ہاتھ بھی نہیں لگایا تو پھر مرد کی طرف سے ادائیگی کیں ضروری ہے، اس آئت میں؟؟؟؟ (سوال ہے ، ضوواب دیجئے)
 

ربیع م

محفلین
آپ کی فراہم کردہ آیت مہر معجل اور غیر معجل کا تعین نہیں کرتی ہے صاحب۔ یہ آیت تعین کرتی ہے کہ مہر کب ادا کرنا ضروری ہو گیا۔ ملاء کبھی قرآن حکیم کو مانتا ہی نہیں، صرف حیلے بہانوں سے ادھر ادھر کی ہانکتا ہے۔
2:236 لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جب کہ انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور ان کے لیے کچھ مہر بھی مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ سامان دے دو وسعت والے پر اپنے قدر کے مطابق اور مفلس پر اپنے قدر کے مطابق سامان حسب دستور ہے نیکو کاروں پر یہ حق ہے

کیا ُآ کے خیال میں بناء مہر مقرر کئے عقد النکاح مکمل ہوجاتا ہے؟ کیا مہر نکاح کی شرط ہے ؟ یا آپ کے خیال میں نہیں ؟ تو مہر مقرر نہیں ہوا، ہاتھ بھی نہیں لگایا تو پھر مرد کی طرف سے ادائیگی کیں ضروری ہے، اس آئت میں؟؟؟؟ (سوال ہے ، ضوواب دیجئے)
پہلے طلاق کی تعریف تو بیان کیجئے محترم!
 
Top