بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

اس کا مطلب اگر منگنی کے بعد خاوند یا بیوی مر جائے تو وراثت میں بھی حصہ دار ہوں گے؟

مہر اور وراثت الگ الگ معاملات ہیں۔ جو کچھ عورت کو علیحدگی کے بعد اس کے حق کے طور پر اب ادا کیا جانا ہے ، وہ ہر طرح سے مرد سے وصولا جائے گا۔ جس میں اس کی وراثت، حصے وغیرہ سب شامل ہیں۔ آسان علاج یہی ہے کہ 10 سے بیس سال کی آمدنی کا حق عورت کو دیا جائے۔

والسلام
 

ربیع م

محفلین

ربیع م

محفلین
یہاں حکم دیا جارہا ہے ان خواتین کے بارے میں جن کو مرد نے 'چھوا' نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے یہاں لفظ 'نکاح ' نہیں استعمال کیا ہے بلکہ لفظ ہے ۔۔۔ 'تَمَسُّوهُنُّ' صاف اور واضح۔
باقی آپ کی اس معنوی تحریف کو قرآن واضح طور پر رد کر رہا ہے.
دیکھئے!
﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِناتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا﴾
[Al-Ahzâb: 49]
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انھیں چھونے سے قبل طلاق دو تو اس صورت میں ان عورتوں پر کوئی عدت نہیں جو تم شمار کرو پس انھیں سازوسامان دے دو اور ان سے اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کر لو
یہاں واضح طور پر کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے.
امید ہے آپ کی تشفی ہو گئی ہو گی کہ تمسوھن سے مراد منگنی کے بعد والا چھونا نہیں ہے.
 
آخری تدوین:
یعنی آپ کا موقف یہ ہے کہ اگر
منگنی کے بعد طلاق ہو تو سازوسامان دیا جائے گا.
اگر عقد نکاح کے بعد طلاق ہو تو حق مہر اور دس سے بیس سال کی آمدنی؟

اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم سے دیکھئے۔ پڑھئے اور مجھے بتائیے کہ آپ ان آیات سے کیا معانی اخذ کرتے ہیں۔ میں صرف مسلم ہوں۔ قرآن حکیم ، میرے اور آپ کے درمیان متفقہ کتاب ہے ۔ لہذا ہم اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں، اور اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔

1۔ طلاق کے معانی، قرآن حکیم سے:
طلاق کے معانی ہیں چھوڑ کے چل دینے کے۔ اس کے لئے آپ سورۃ 18 کی آیات ، 71، 74 اور 77 دیکھئے۔ یہاں میں صرف آیت نمبر 71 کا حوالہ فراہم کررہا ہوں۔

18:71 فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا
پس دونوں چل دیئے یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے (تو خضر علیہ السلام نے) اس (کشتی) میں شگاف کر دیا، موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: کیا آپ نے اسے اس لئے (شگاف کر کے) پھاڑ ڈالا ہے کہ آپ کشتی والوں کو غرق کردیں، بیشک آپ نے بڑی عجیب بات کی

یہی معانی آپ کو 38:6 سے ملتے ہیں کہ
38:6 وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ
اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو بے شک اس میں کچھ غرض ہے



اب ایک مرد چھوڑ کے چلا جاتا ہے تو اس کی ممکنہ صورت حال ۔

اللہ تعالی کا فرمان دیکھئے:
وہ عورتیں جن کا مہر مققر نہیں ہوا اور ان کو چھوا بھی نہیں گیا : تو

2:236 لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، (بہر طور) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے


مہر مقرر ہو گیا، لیکن چھوا نہیں:

2:237 وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَن تَعْفُواْ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کردے)، اور (اے مَردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بیشک اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے

عقد النکاح لیکن چھوا نہیں :
33:49 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو

طلاق یافتہ عورتوں کو خرچہ کی ادائیگی؟
2:241 وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے


آپ ان آیات کا کسی بھی مترجم کا ترجمہ پڑھ لیجئے۔ اور پھر مجھے بتائیے کہ مرد پر کس قسم کی ذمہ داری آکر پڑتی ہے

اور خدمت کے 8 یا دس سال تو بھائی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بطور قرانی اور شرعی مہر موجود ہے؟ اس میں کیا اعتراض ہے ؟

مہر کس موقعہ پر کتنا ادا کرنا لازمی ہوگیا ، یہ بھی آپ کو مندرجہ بالاء آیات سے مل جائے گا۔ چھو لیا اور مہر معجل اور غیرمعجل لام ہو گیا۔ اب ذاتی فائیدے کے لئے لڑ لیجئے یا ایک باپ، ایک بیٹا اور ایک بھائی بن کر سوچئے کہ آپ کے ان محترم خواتین کے دفاع میں آپ کے نکات کیا ہوں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان مرد اور عورت دونوں کی مساوی باندھتا ہے،

جواب دینے سے پہلے کچھ دن سوچئے پھر بات کرتے ہیں۔ سوچئے ایک سینیٹر، ایک قانون ساز ، ملت ساز کی طرح سے نا کہ صرف ایک شوہر کی طرح سے۔ اولاد پیدا کرنے کی ذمہ داری اگر عورت کی ہے تو اس کو پالنے والی کی کو اللہ تعالی کیا تحفظ فراہم کرتے ہیں؟

والسلام
 
آخری تدوین:
باقی آپ کی اس معنوی تحریف کو قرآن واضح طور پر رد کر رہا ہے.
دیکھئے!
﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِناتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا﴾
[Al-Ahzâb: 49]
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انھیں چھونے سے قبل طلاق دو تو اس صورت میں ان عورتوں پر کوئی عدت نہیں جو تم شمار کرو پس انھیں سازوسامان دے دو اور ان سے اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کر لو
یہاں واضح طور پر کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے.
امید ہے آپ کی تشفی ہو گئی ہو گی کہ تمسوھن سے مراد منگنی کے بعد والا چھونا نہیں ہے.
یہ 'چھوا نہیں تو عدت نہیں' کے لئے ہے، کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مالی خرچہ بھی نہیں دینا ہے؟ اگر چھوا ہی نہیں تو پھر 'فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا' کا مقصد کیا ہے؟
معنوی تحریف کوئی نہیں۔ عقد النکاح ہوا، چھوا نہیں۔ تو عدت کوئی نہیں، تو کیا ادائیگی بھی نہیں؟؟؟

والسلام
 
ان نکات سے صاف ظاہر ہے کہ تین مرتبہ ، یہ کہنا کہ میں چھوڑ کے جارہا ہوں ، ایک جانے والے یعنی طلاق دینے والے مرد کو اس کی وعدہ کی ہوئی ذمہ داری سے بری نہیں کرتا۔ ایسا قدم اٹھانے والا کہ تین مرتبہ کہے کہ میں چھوڑ کے جارہا ہوں، اور اس کے بعد وعدہ کیا ہوا فرض پورا نا کرے ، ایسا شخص ایک مجرم ہے، تین سال کی سزا اس کے لئے کم ہے، ایسے جرم کرنے والا مرد، کم از کم دس سال کی کمائی بطور جرمانہ، اپنی سابقہ بیوی کو ادا کرے۔ ہندوستانی عدالت اور ان کی قانون ساز اسمبلی کا فیصلہ درست ہے ، جو منطقی اعتبار سے، قومی اعتبار سے اور قرآنی اعتبار ، ہر طرح سے مناسب ہے۔

والسلام
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
ہندوستانی عدالت کا فیصلہ درست ہے
میری دلیل درست ہے
شیطان نے بھی یہی کہا تھا کہ میری دلیل درست ہے. جب انسان خود کو توپ سمجھ لیتا ہے تو اسی طرح کے بم چھوڑتا ہے. قرآن سے ایسی باتیں ثابت ہورہی ہیں جیسے یہ چشم دید گواہ ہیں آیات کے نزول اور ان کے سیاق و سباق کے.
یہ بھٹکی ہوئی سوچ سنت سے دور ہونے کا ثبوت ہے. خدا کے بھیجے ہوئے کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ایک شیطانی عمل ہے اور یہ کام شیطان ہی کرواتا ہے.
 
ہندوستانی عدالت کا فیصلہ درست ہے
میری دلیل درست ہے
شیطان نے بھی یہی کہا تھا کہ میری دلیل درست ہے. جب انسان خود کو توپ سمجھ لیتا ہے تو اسی طرح کے بم چھوڑتا ہے. قرآن سے ایسی باتیں ثابت ہورہی ہیں جیسے یہ چشم دید گواہ ہیں آیات کے نزول اور ان کے سیاق و سباق کے.
یہ بھٹکی ہوئی سوچ سنت سے دور ہونے کا ثبوت ہے. خدا کے بھیجے ہوئے کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ایک شیطانی عمل ہے اور یہ کام شیطان ہی کرواتا ہے.

قرآن حکیم کی ایات سامنے ہیں۔ آپ کس آیت کی تکفیر فرما رہے ہیں؟ اور آپ کے بیان ، سنت سے دوری ، کی کیا دلیل ہے آپ کے پاس؟ آپ کا سنت سے دوری کا الزام، کس کی سنت سے دوری؟ رسول اکرم کی سنت میں کتنی طلاقیں ملتی ہیں؟ رسول اکرم نے کتنی طلاقیں دیں؟

صرف ملاء ازم کی حفاظت کرنے کے لئے خواہ مخواہ کی ہوائیاں ؟

آپ کا کیا نظریہ ہے طلاق اور طلاق کے بعد محترم خواتین کی کفالت کے بارے میں؟ اور اس کی کیا دلیل ہے آپ کے پاس قرآن حکیم سے؟ پیش کیجئے۔

و

والسلام
 

ربیع م

محفلین
اور خدمت کے 8 یا دس سال تو بھائی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بطور قرانی اور شرعی مہر موجود ہے؟ اس میں کیا اعتراض ہے ؟
میرا آپ سے سوال ہے جب آپ کا نکاح ہوا تھا آپ نے دس سال یا 8 سال اپنے سسرال رہ کر بیوی کے اہل خانہ کی بکریاں چرائی تھیں یا نہیں؟
اگر نہیں تو آپ نے تو حق مہر ادا نہیں کیا نکاح آپ کا آپ کے نقطہ نظر سے باطل ہے اسے حلال کرنے کی فی الفور تدبیر کیجئے.
 

ربیع م

محفلین
باقی رہ گیا عورت کی رہائش اور نفقہ اس کے متعلق میں پچھلے مراسلوں میں بار بار قرآنی نقطہ نظر واضح کر چکا ہوں لیکن آپ نے قسم کھا رکھی ہے جواب نہ دینے اور نا ماننے کی.
 
اب ملاء اپنی ذاتی خوہشات کی تکمیل کے بہانے ڈھونڈتا رہے۔

ملاء پرست نظریات کے حامل افراد سے سوال۔

یار یہی معاہدہ تو ملاء گھول گھول کر پلا رہے ہیں
مزا آ گیا پڑھ کر۔ یار یہ کون ملاء آپ کے سر پر سوار ہوگیا؟ اللّٰہ آپ کی مدد کرے۔
 

ربیع م

محفلین
یہاں

محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :







یقینا انسان ہونے کے ناطے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن کلام اللہ کے سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے ۔

دوسری بات: ابھی پچھلا مکالمہ ہی کسی نتیجے پر پہنچائے بغیر آپ اسے ادھورا چھوڑ گئے ، ہم بھی آپ کی بزرگی کے احترام میں خاموش رہے کہ آپ نے نئے سرے سے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔

تیسری بات : مہر معجل اور مؤجل:



کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کی رو سے مہر مؤجل درست نہیں ؟مہر عقد نکاح کے وقت ہی ادا کر دینا چاہئے ؟

تو قرآن خود کہتا ہے :

لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦

تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

چہارم:کیا نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری ہے ؟





فاروق صاحب آپ کا دعوی ہے کہ طلاق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کیلئے مرد کی ذمہ داری ہیں اور مرد اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا ۔یہاں تک کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ عدت پوری ہونے اور مرد کی جانب سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں بھی اس کی رہائش کا بندوبست اب مرد کی ذمہ داری ہے ۔

اس سلسلے میں پہلے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں ۔

کیا طلاق کے بعد عورت کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری ہے ؟

آپ کی پہلی دلیل :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّ۔هِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّ۔هِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّ۔هَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿١

اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت میں طلاق دو اور عدت کو خوب اچھی طرح گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے ، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائیں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔

اگلی آیت دیکھیں :

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّ۔هِ ۚ

پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو ، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوا جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کیلئے قائم کرو۔

اب یہاں غور فرمائیے ! یہ اس صورت میں حکم ہو رہا ہے جب طلاق رجعی ہے یعنی مر دکے پاس رجوع کا حق موجود ہے طلاق بائنہ کا بیان نہیں ہو رہا۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ " تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔"

اور آپ نے اپنے ترجمہ میں بریکٹس کے اندر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اللہ رب العزت رجوع کی کوئی صورت پیدا کردیں ۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق رجعی کی صورت میں حکم ہے ۔

اچھا اب اگلی آیت ملاحظہ کریں تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے کہ " جب ان کی عدت مکمل ہونے لگے تو یا اچھے طریقے سے روک لو یا جد اکر لو ، اب اگر طلاق بائنہ ہو ( فی الحال ہم اس بحث میں نہیں داخل ہوتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائن ) اچھے طریقے سے روک لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اب آپ نے اگلی دلیل یہ دی کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق ، اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

اب ان آیات پر غور کیجئے !

پہلی ذکر کردہ دو آیات میں اللہ نے فرمایا کہ طلاق دینے کے بعد عدت شمار کرو نہ تم انھیں اپنے گھروں سے نکالو اور نہ ہی وہ اپنے گھروں سے نکلیں آخر میں حکمت بیان فرمادی کہ شاید اللہ تعالیٰ رجوع یا صلح کی کوئی صورت پیدا فرما دیں ۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ جب عدت کا وقت گزر جائے تویا اچھے طریقے سے روک رکھو یا جدا ہو جاؤ

درمیان کی کچھ آیات میں اللہ نے وعظ و نصیحت کی اور پھر فرمایا کہ انھیں وہاں ٹھہرانا ہے جہاں تم رہائش پذیر ہو۔

اب دیکھئے !

· اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔

· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔

· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟

· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔

· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟

· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں



· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟

اب آپ کے دعویٰ کے دوسرے جزو کو دیکھئے !

کیامطلقہ عورت کا نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کے ذمہ ہے ۔

آپ نے دلیل میں آیات پیش کیں کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو ، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلادے گی

وسعت والے کو چاہئے کہ اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔

اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !

اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔

اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔

اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟

باقی ہر بات میں ملا کو مطعون کرنے سے ہمیں اسی محفل کے ہی ایک رکن حسیب احمد حسیب بھائی کی ایک تحریر "مولویریا کے مریض"یاد آ جاتی ہے



بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔
 

ربیع م

محفلین
میرا آپ سے سوال ہے جب آپ کا نکاح ہوا تھا آپ نے دس سال یا 8 سال اپنے سسرال رہ کر بیوی کے اہل خانہ کی بکریاں چرائی تھیں یا نہیں؟
اگر نہیں تو آپ نے تو حق مہر ادا نہیں کیا نکاح آپ کا آپ کے نقطہ نظر سے باطل ہے اسے حلال کرنے کی فی الفور تدبیر کیجئے.
اب اس میں کیا مضحکہ خیزی دکھائی دی کیا آپ کا یہ موقف نہیں کہ یہ قرآنی حق مہر ہے؟
 
Top