کاشفی

محفلین
غزل
ضاؔمن جعفری
اے گردبادِ وقت! بکھرتا نہیں ہُوں میں
نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں

دیکھا ضرور سب نے رُکا کوئی بھی نہیں
کہتا رہا ہر اِک سے، تماشا نہیں ہُوں میں

ساحل ہے تُو تَو، تجھ کو سمندر کا کیا پَتا
مجھ میں اُتَر کے دیکھ، ڈبوتا نہیں ہُوں میں

بیٹھا جو لےکے خود کو تَو معلوم یہ ہُوا
تنہا دِکھائی دیتا ہُوں، تنہا نہیں ہُوں میں

ہَمدَردِیوں کے خوف سے ضاؔمن یہ حال ہے
اب دل پہ ہاتھ رکھ کے نکلتا نہیں ہُوں میں
 
Top