کاشفی

محفلین
غزل
(ضاؔمن جعفری)
اے جذب! اے جنوں! کوئی جلوہ دِکھائی دے
اب تا بہ کئے خرد کا تماشہ دِکھائی دے

ہرشخص ہے تصوّرِ منزل لیے ہوئے
منزل تو جب ملے کوئی رستہ دِکھائی دے

مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہوں سرِ ریگزارِ دشت
شاید غبار میں کوئی چہرہ دِکھائی دے

پردہ تو امتحانِ نظر کا ہے ایک نام
بینا ہے وہ جسے پسِ پردہ دِکھائی دے

عہدِ شباب جانے کب آکر نکل گیا
ہم منتظر رہے کہ وہ لمحہ دِکھائی دے

ضاؔمن سرشک غم میں ہے ماضی کی آب و تاب
یادیں مجھے، زمانے کو قطرہ دِکھائی دے
 
Top