ایک مسلم طالب علم کے لئے دن بھر کا آئیڈیل (مثالی) روٹین کیسا ہونا چاہئے ؟

آپ کے خیال میں ایک مسلم طالب علم کے لئے دن بھر کا روٹین کیسا ہونا چاہئے ؟ محفلین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی آرااور تجاویز یہاں شیر کریں ۔ اس سے مجھ سمیت بہت سے طلبا کا فائدہ ہوگا ۔ فی الحال اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہاں بہت سے طلبا ہیں اور محفل ان کے لئے ایک تربیت گاہ طرح ہے ۔​
ابھی بہتوں کےامتحانات ابھی ختم ہوئےہیں،کچھ دنوں کے بعد وہ نئے کلاسوں میں ایڈمیشن لیں گے،بہتوں کی گرما کی چھٹیاں ہو چکی ہے ایک دو ماہ بعد وہ اپنی اپنی چھٹیاں گذار کر واپس اپنے اپنے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے۔نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ ،ایسے میں اگر انھیں وقت گذارنے کا ہنر بھی معلوم ہو جائے تو یقینا انھیں کافی فائدہ ہوگا ۔​
اس لئے سبھوں سے گذارش ہے کہ وہ طلباکے اعلی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے چوبیس گھنٹوں کو کیسے مرتب کریں کے وقت بھی نا ضائع ہو اور وہ اپنے مقاصد کو بھی حاصل کر سکیں بتائیں ؟​
اس سلسلہ میں صحت ،معلومات عامہ،کھیل کود ،انٹرٹینمنٹ ،سیرو تفریح کے علاوہ نوجوانوں کے احساسات و جذبات کا بھی خیال رکھیں ۔ ایسا نہ ہو کہ صرف پڑھائی پڑھائی اور پڑھائی کی ہی بات کی گئی ہو ۔​
پڑھائی کا سب سے بیسٹ طریقہ کیا ہے ،کون سا وقت اچھا مانا جاتا ہے ،پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ جو فائدے مند رہا ہو اسے بھی بتائیں ۔​
 

یوسف-2

محفلین
  1. سب پہلے تو وہ نماز پنجگانہ کی پابند کرے
  2. اکثر لوگ رات گئے تک پڑھتے ہیں۔ یہ طریقہ حفظان صحت کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ کوشش کریں کہ رات دس ساڑھے دس تک لازماً سو جائیں اور چھہ گھنٹوں کی نیند کے بعد چار ساڑھے چار بجے اُٹھ جائیں۔ ضروریات سے فراغت کے بعد فریش ہو کر تہجد کی نماز پڑھیں اور پھر اپنی پڑھائی شروع کردیں پھر فجر کی نماز کے لئے وقفہ کریں اور فجر کے بعد کالج یونیورسٹی جانے تلک جتنا دل چاہے پڑھتے رہیں۔ ناشتہ کے بعد ہلکی پھلی چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو پڑھائی کھلے صحن میں کریں۔ اس وقت کا موسم پڑھنے اور یاد کرنے کے لئے بہترین ہوتا ہے۔
  3. کالج یونیورسٹی سے واپس آن کر دوپہر کا کھانا اور ظہر کی نماز کے بعد ایک سے دو گھنٹہ (جتنا موقع ملے) قیلولہ ضرور کیجئے۔ اس سے ایک تو آپ کی آٹھ گھنٹہ کی نیند پوری ہوجائے گی۔ دوسرے آپ دوبارہ فریش ہوجائیں گے
  4. عصر تا مغرب اگر کوئی آؤٹ ڈور گیم کھیلتے ہوں یا دوستوں کے ساتھ باہر آتے جاتے ہوں تو یہ وقت نہایت مناسب ہے۔
  5. بعد نماز مغرب رات کا کھانا کھا لینا بہتر ہوتا ہے ورنہ عشاء کی نماز سے قبل ضرور کھا لیں۔ مغرب اور عشا کے درمیان اِن ڈور مصروفیات اور تفریح کے لئے مناسب ہے جیسے ٹی وی دیکھنا، انٹر نیٹ استعمال کرنا یا اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا۔
  6. عشا کی نماز کے بعد پڑھنے بیٹھ جائیں اور گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اور سردیوں میں دو سے ڈھائی گھنٹہ پڑھ کر سو جائیں۔
پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم (جامعہ ہمدرد کے بانی)، طبیب اور ادیب ساری عمر رات دس بجے سو جایا کرتے تھے اور علی الصباح چار بجے تہجد سے قبل اُٹھ جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ سندھ کے گورنر بنے تب بھی اسی نطام الاوقات کی پابندی کرتے رہے۔ گورنری کے اعلان کے پہلے شب جب صحافی حضرات رات دس بجے کے بعد اُن سے ملنے آئے تھے کہ انہیں مبارکباد دیں اور اُن کی رائے لیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو سو چکے ہیں حالانکہ انہیں اپنی گورنری کی نامزدگی کی اطلاع مل چکی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ واحد طبیب تھے جو اپنے مقررہ شیڈیول کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں نماز فجر کے بعد کلینک کیا کرتے تھے۔ اور اُس وقت بھی مریضوں کی لمبی قطار موجود ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مجھے بھی نماز فجر کے بعد کراچی مین اُن کے کلینک پر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں اتنا زیادہ کام کرنے والا شخص بھی علی الصباح ہی پڑھنے لکھنے کا کام کیا کرتا تھا۔
 

سید زبیر

محفلین
عزیزم یوسف-2 نے جو پروگرم ترتیب دیا ہے بہت اچھا ہے اس کے بعد صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کی اپنی ذمہ داریان ہوتی ہیں ، اپنی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں جو اسکی اس دنیا کی ذمہ داریوں کے عین مطابق ہوتی ہیں ۔لیکن روزمرہ زندگی کو ایک پروگرام ضرور ہونا چاہئیے اور اس پر کاربند رہنا چاہئیے ۔ اور جسمانی مشق کے لیے لازمی وقت نکالنا چاہئیے خواہ کام کی کتنی ہی زیادتی اور مصروفیات کیوں نہ ہو ۔
 

باباجی

محفلین
ّ@یوسف-2
جناب نے بہت ہی اچھا شیڈول دیا ہے
پڑھائی، کھیل کود اور گھومنے پھرنے کا شیڈول بنانا چاہیئے
ہم لوگ تو گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتے تھے
تو وہاں صبح صبح اٹھ کر واک کرتے تھے تازہ ہوا میں
پھر ناشتہ کرکے پڑھنے بیٹھ جاتے تھے اور تقریباً 3 گھنٹے تک پڑھتے تھے
پھر کھیل کود میں لگ جاتے تھے اور دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتے تھے پھر شام کو چائے پی کر کھیلتے تھے
مغرب کے بعد پھر پڑھائی کرتے تھے 8 بجے تک
گاؤں دیہات میں آپ کو پتا ہے رات کا کھانا جلدی کھا لیا جاتا ہے تو 8:30 تک کھانا کھالیتے تھے
پھر کوئی انڈور گیم جیسے کہ لوڈو، کیرم وغیرہ کھیلتے تھے
اور دس یا ساڑھے دس تک سو جاتے تھے

آجکل تو بالکل ہی الگ ماحول ہے مصروفیات بھی بدل گئیں ہیں
لیکن اپنی پڑھائی اور کھیل کود کے لیئے وقت ضرور نکالیں جسمانی ورزش کے لیئے کھیل کود بہت ضروری اور فائدہ مند ہوتا ہے
اور بہت زیادہ سونا بھی صحت کے لیئے نقصان دہ ہے
اگر آپ نماز پابندی سے نہیں پڑھ تے تو
گرمیوں کی چھٹیوں میں آپ اس کی پابندی کرسکتے ہیں
اور پھر آپ ہمیشہ پابند رہیں گے
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک باریک سا فرق واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ٹائم ٹیبل بنا کر اپنا دن نہ گذاریں۔ اپنے دن کی روٹین کو دیکھ کر اپنی سہولت کے مطابق اس میں تبدیلیاں کر کے اس کے مطابق چلیں۔ اگر شیڈیول بنا کر دن گذارنا چاہیں گے تو بہت ہی زیادہ مشکل ہوگی۔ اگر اپنی بنی بنائی روٹین کو تھوڑا بہت موڈیفائی کر کے اس پر چلیں گے تو بہت آسانی رہے گی۔ انسانی (فوجی نہیں :daydreaming:) فطرت ہے کہ جو چیز مسلط کی جائے، اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے خلاف بغاوت کرنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں
ایسا کیجیئے کہ موٹا سا شیڈیول بنا لیں کہ چار گھنٹے یا چھ گھنٹے تعلیم کے ہوں، باقی وقت جیسے بھی گذرے، گذاریں :)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مثالی اور آئیڈیل بات تو یہ ہے کہ ٹائم مینیجمنٹ (نظام الاوقات بنا) کر کے شیڈول کے مطابق کام کیا جائے۔
لیکن انفرادی امتیازات، مختلف طبیعتوں،مختلف مزاجوں، مختلف ماحول، اسکول، کالج کے مختلف اوقات،مختلف حالات کے رہتےٹائٹ ٹائم شیڈول بناکر چلنا بسا اوقات ممکن نہیں ہوتا۔اسی لیے اپنے چوبیس گھنٹوں کو اپنی طبیعت، اپنے مزاج، اپنے ماحول، اپنے اسکول - کالج کے اوقات، اپنے حالات اور اپنی پسند نا پسند کو ذہن میں رکھ کر موٹے طور پر ایک نظام الاوقات یا یوں کہیے کہ تقسیم الاوقات بنا لینا چاہیے،(جیسا کہ قیصرانی صاحب فرما چکے ہیں۔) اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کا نظام الاوقات یا تقسیم الاوقات لچک دار ہونا چاہیے، یعنی ایسا ہونا چاہیے کہ آپ حسب ضرورت اس میں ترمیم کر سکیں۔ اپنے نظام الاوقات یا تقسیم الاوقات میں نمازوں کے اوقات اور موسم کے تقاضوں کا بھی بطور خاص خیال رکھیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
ویک اینڈ نظام الاوقات سے فری ہونا ضروری ہے۔ ہفتے میں ایک روز ایسا ضرور ہونا چاہیے جس میں نمازوں اور کھانے کے اوقات کے علاوہ کسی چیز کی پابندی ضروری نہ ہو
 

یوسف-2

محفلین
اسکول کے طلباء کا ذکر نہیں کرتا کہ وہ عموماً اپنی اَمی کے قبضہ قدرت :grin: میں ہوتے ہیں لیکنآج کل کے کالج یونیورسٹی کے عمومی طالب علموں کا انتہائی فضول نظام الاوقات جسے میں ”افراتفری نطام الاوقات“:D کہتا ہون کچھ یوں ہوتا ہے :
صبح انتہائی تاخیر سے بیدار ہونا کہ کالج یا یونیورسٹی جانے میں محض بیس تیس منٹ باقی ہوں۔ انتہائی تیزی سے واش روم جانا، جلدی جلدی تیار ہونا، امی کا تیار کردہ ناشتہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرنا کہ ٹائم نہیں ہے، ابھی کھایا نہیں جائے گا، وغیرہ وغیرہ گھر سے باہر نکل جانا تاکہ پوائنٹ نہ چھوٹ جائے۔ اور اکثر و بیشتر گھر سے باہر نکل کر کال بیل بجانا کہ جلدی سے میرا بٹوا، میرا موبائل یا کچھ اور پکڑا دیں :D اور کالج یا یونی پہنچ کر یہ یاد آنا کہ او ہو فلاں کتاب یا فلاں جرنل تو لانا ہی بھول گیا، آج تو پریکٹیکل بھی ہے :)
کالج اوریونیورسٹی سے (بالخصوص اگر پیشہ ورانہ ہوں تو) واپس گھر آتے آتے چار پانچ بج جاتے ہیں۔ اگر جامعہ میں پڑھائی سے فارغ ہوکر جنک فوڈ وغیرہ کھا لیا ہو تو گھر پر کھانا کھانے سے انکار ہوجاتا ہے۔ اور اگر بھوکے رہے ہوں یا صرف کولڈ ڈرنکس پر اکتفا کیا ہو تو جلدی کھا پی کر ۔ ۔ ۔ ۔ میں سونے جارہا ہوں، کوئی مجھے تنگ نہ کرے کہہ کر بستر پر دراز ہوجاتے ہیں اور مغرب تک بلکہ اکثر اس کے بعد تک نیند پوری کرکے اُٹھتے ہیں۔ :)
پھر اطمینان سے پڑھنے کی میز پر آتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں موبائل ہوتا تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کھُل جاتا ہے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد کتاب بھی بالآخر کھُل ہی جاتا ہے۔ تب تک نو دس بج چکے ہوتے ہیں۔ گھر والے عموماً عشائیہ کی میز پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اور اس طالب علم کو بھی ”دعوت“ کی جاتی ہے کہ کھانا کھا لے۔ اگر تو موصوف یونی میں برگر وغیرہ کھا کر آئے ہوں اور گھر میں آن کر کچھ نہ کھایا ہو تو احسان عظیم فرماتے ہوئے پڑھائی ”چھوڑ“ کر کھانا کھانے آجاتے ہیں۔ لیکن اگر یونی میں سارا دن بھوکے رہے ہوں اور گھر آتے ہی سر شام کھانا کھایا ہو تو پھر عشائیہ سے معذرت کرلیتے ہیں۔ اور پڑھائی میں ”مصروف“ رہتے ہیں۔ نیٹ اور کتاب کو اپنی بیویاں سمجھتے ہوئے ہر دو کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک کرتے ہیں :p مجال ہے کہ کسی بھی لمحہ کوئی ایک نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اس مساویانہ سلوک کے سبب پڑھائی اور اسائنمنٹس نامکمل ہی رہتی ہے اور ایک ڈیڑھ بج جاتا ہے۔ ایسے میں عموماً امی جان آکر شفقت سے فرماتی ہیں کہ بیٹا اب سوجاؤ۔ اور کتنا پڑھوگے، صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے اور برخور دار دس پندرہ منٹ مزید یہ کہہ کر پڑھنے لگتے ہیں کہ امی ابھی تو اسائنمنٹس مکمل نہیں ہوا۔ چلیں باقی یونی میں کل کر لوں گا اور امی پر احسان عظیم فرماتے ہوئے بیڈ پر چلے جاتے ہیں۔ موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہم جماعتوں کی طرف سے ایس ایم ایس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور سوتے سوتے دو ڈھائی بج جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی دو ڈھائی بجے سوئے تو صبح جلدی کیسے اٹھے۔ لہٰذا اگلا دن وہی افرا تفری کا ہوتا ہے بشرطیکہ وہھ دن چھٹی کا نہ ہو۔ جب موصوف تین کے بعد ہی سوتے ہیں اور اگلے روز دوپہر کو تھک ہار اُٹھ جاتے ہیں۔:p
اگر آپ میں سے کسی طالب علم کو اس منظر کشی میں اپنا عکس نظر آئے (اور شاید ہی کسی کو نظر نہ آئے:) ) تو وہ مجھے ”مورد الزام“ نہ ٹھہرائے بلکہ یہ سوچ لے کہ اس کا یہ طرز زندگی، نارمل نہیں ہے۔ نیچر سے ہٹ کر ہے۔ اور اِس افراتفری شیڈیول کا منفی اثر اُس کی ساری پیشہ ورانہ زندگی میں پڑ سکتا ہے، بلکہ لازماً پڑے گا۔ مغربی معاشرون میں تو یہ شیڈیول عام ہے اور اب ہم مشرق والے بھی اندھا دھند اسی کو فالو کئے چلے جارہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اور اکثر و بیشتر گھر سے باہر نکل کر کال بیل بجانا کہ جلدی سے میرا بٹوا، میرا موبائل یا کچھ اور پکڑا دیں​
:D
اور کالج یا یونی پہنچ کر یہ یاد آنا کہ او ہو فلاں کتاب یا فلاں جرنل تو لانا ہی بھول گیا، آج تو پریکٹیکل بھی ہے​
:)
ایسے بھلکڑ بچوں کے لیے چند مفید مشورے یا ٹپس حسب ذیل ہیں:
1۔ ہمیشہ با وضو رہنے کی کوشش کریں۔
2۔ نماز کی پابندی کریں۔
3۔ ہر فرض نماز کے بعد پیشانی پر ہاتھ رکھ کر گیارہ مرتبہ "یا قَوِی" کا وِرد کریں۔
4۔ 100گرام بادام پر 786مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر دم کرلیں،
ۃۃۃۃروزانہ رات میں ایک بادام ایک کپ پانی میں بھگو دیں،
ۃۃۃۃصبح اُٹھ کر کپ کا پانی پی لیں اور بادام کو مسالہ پیسنے کی سل پر گھس کر چاٹ لیں۔
5۔ روزانہ صبح نہار منہ ہمدرد کا"خمیرہ گاؤزباں عنبری جواہروالاخاص"2 سے 5 گرام استعمال کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا
ۃۃۃۃاِنڈین بچے ہندوستان فارمسی کی Tab. Mentat کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
ۃۃۃۃان شاء اللہ نسیان(یعنی بھولنے کا مرض) میں افاقہ ہوگا۔
 

مہ جبین

محفلین
  1. سب پہلے تو وہ نماز پنجگانہ کی پابند کرے
  2. اکثر لوگ رات گئے تک پڑھتے ہیں۔ یہ طریقہ حفظان صحت کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ کوشش کریں کہ رات دس ساڑھے دس تک لازماً سو جائیں اور چھہ گھنٹوں کی نیند کے بعد چار ساڑھے چار بجے اُٹھ جائیں۔ ضروریات سے فراغت کے بعد فریش ہو کر تہجد کی نماز پڑھیں اور پھر اپنی پڑھائی شروع کردیں پھر فجر کی نماز کے لئے وقفہ کریں اور فجر کے بعد کالج یونیورسٹی جانے تلک جتنا دل چاہے پڑھتے رہیں۔ ناشتہ کے بعد ہلکی پھلی چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو پڑھائی کھلے صحن میں کریں۔ اس وقت کا موسم پڑھنے اور یاد کرنے کے لئے بہترین ہوتا ہے۔
  3. کالج یونیورسٹی سے واپس آن کر دوپہر کا کھانا اور ظہر کی نماز کے بعد ایک سے دو گھنٹہ (جتنا موقع ملے) قیلولہ ضرور کیجئے۔ اس سے ایک تو آپ کی آٹھ گھنٹہ کی نیند پوری ہوجائے گی۔ دوسرے آپ دوبارہ فریش ہوجائیں گے
  4. عصر تا مغرب اگر کوئی آؤٹ ڈور گیم کھیلتے ہوں یا دوستوں کے ساتھ باہر آتے جاتے ہوں تو یہ وقت نہایت مناسب ہے۔
  5. بعد نماز مغرب رات کا کھانا کھا لینا بہتر ہوتا ہے ورنہ عشاء کی نماز سے قبل ضرور کھا لیں۔ مغرب اور عشا کے درمیان اِن ڈور مصروفیات اور تفریح کے لئے مناسب ہے جیسے ٹی وی دیکھنا، انٹر نیٹ استعمال کرنا یا اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا۔
  6. عشا کی نماز کے بعد پڑھنے بیٹھ جائیں اور گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اور سردیوں میں دو سے ڈھائی گھنٹہ پڑھ کر سو جائیں۔
پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم (جامعہ ہمدرد کے بانی)، طبیب اور ادیب ساری عمر رات دس بجے سو جایا کرتے تھے اور علی الصباح چار بجے تہجد سے قبل اُٹھ جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ سندھ کے گورنر بنے تب بھی اسی نطام الاوقات کی پابندی کرتے رہے۔ گورنری کے اعلان کے پہلے شب جب صحافی حضرات رات دس بجے کے بعد اُن سے ملنے آئے تھے کہ انہیں مبارکباد دیں اور اُن کی رائے لیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو سو چکے ہیں حالانکہ انہیں اپنی گورنری کی نامزدگی کی اطلاع مل چکی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ واحد طبیب تھے جو اپنے مقررہ شیڈیول کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں نماز فجر کے بعد کلینک کیا کرتے تھے۔ اور اُس وقت بھی مریضوں کی لمبی قطار موجود ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مجھے بھی نماز فجر کے بعد کراچی مین اُن کے کلینک پر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں اتنا زیادہ کام کرنے والا شخص بھی علی الصباح ہی پڑھنے لکھنے کا کام کیا کرتا تھا۔

بہت زبردست نظام الاوقات
سوفیصد متفق
 

مہ جبین

محفلین
اسکول کے طلباء کا ذکر نہیں کرتا کہ وہ عموماً اپنی اَمی کے قبضہ قدرت :grin: میں ہوتے ہیں لیکنآج کل کے کالج یونیورسٹی کے عمومی طالب علموں کا انتہائی فضول نظام الاوقات جسے میں ”افراتفری نطام الاوقات“:D کہتا ہون کچھ یوں ہوتا ہے :
صبح انتہائی تاخیر سے بیدار ہونا کہ کالج یا یونیورسٹی جانے میں محض بیس تیس منٹ باقی ہوں۔ انتہائی تیزی سے واش روم جانا، جلدی جلدی تیار ہونا، امی کا تیار کردہ ناشتہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرنا کہ ٹائم نہیں ہے، ابھی کھایا نہیں جائے گا، وغیرہ وغیرہ گھر سے باہر نکل جانا تاکہ پوائنٹ نہ چھوٹ جائے۔ اور اکثر و بیشتر گھر سے باہر نکل کر کال بیل بجانا کہ جلدی سے میرا بٹوا، میرا موبائل یا کچھ اور پکڑا دیں :D اور کالج یا یونی پہنچ کر یہ یاد آنا کہ او ہو فلاں کتاب یا فلاں جرنل تو لانا ہی بھول گیا، آج تو پریکٹیکل بھی ہے :)
کالج اوریونیورسٹی سے (بالخصوص اگر پیشہ ورانہ ہوں تو) واپس گھر آتے آتے چار پانچ بج جاتے ہیں۔ اگر جامعہ میں پڑھائی سے فارغ ہوکر جنک فوڈ وغیرہ کھا لیا ہو تو گھر پر کھانا کھانے سے انکار ہوجاتا ہے۔ اور اگر بھوکے رہے ہوں یا صرف کولڈ ڈرنکس پر اکتفا کیا ہو تو جلدی کھا پی کر ۔ ۔ ۔ ۔ میں سونے جارہا ہوں، کوئی مجھے تنگ نہ کرے کہہ کر بستر پر دراز ہوجاتے ہیں اور مغرب تک بلکہ اکثر اس کے بعد تک نیند پوری کرکے اُٹھتے ہیں۔ :)
پھر اطمینان سے پڑھنے کی میز پر آتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں موبائل ہوتا تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کھُل جاتا ہے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد کتاب بھی بالآخر کھُل ہی جاتا ہے۔ تب تک نو دس بج چکے ہوتے ہیں۔ گھر والے عموماً عشائیہ کی میز پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اور اس طالب علم کو بھی ”دعوت“ کی جاتی ہے کہ کھانا کھا لے۔ اگر تو موصوف یونی میں برگر وغیرہ کھا کر آئے ہوں اور گھر میں آن کر کچھ نہ کھایا ہو تو احسان عظیم فرماتے ہوئے پڑھائی ”چھوڑ“ کر کھانا کھانے آجاتے ہیں۔ لیکن اگر یونی میں سارا دن بھوکے رہے ہوں اور گھر آتے ہی سر شام کھانا کھایا ہو تو پھر عشائیہ سے معذرت کرلیتے ہیں۔ اور پڑھائی میں ”مصروف“ رہتے ہیں۔ نیٹ اور کتاب کو اپنی بیویاں سمجھتے ہوئے ہر دو کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک کرتے ہیں :p مجال ہے کہ کسی بھی لمحہ کوئی ایک نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اس مساویانہ سلوک کے سبب پڑھائی اور اسائنمنٹس نامکمل ہی رہتی ہے اور ایک ڈیڑھ بج جاتا ہے۔ ایسے میں عموماً امی جان آکر شفقت سے فرماتی ہیں کہ بیٹا اب سوجاؤ۔ اور کتنا پڑھوگے، صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے اور برخور دار دس پندرہ منٹ مزید یہ کہہ کر پڑھنے لگتے ہیں کہ امی ابھی تو اسائنمنٹس مکمل نہیں ہوا۔ چلیں باقی یونی میں کل کر لوں گا اور امی پر احسان عظیم فرماتے ہوئے بیڈ پر چلے جاتے ہیں۔ موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہم جماعتوں کی طرف سے ایس ایم ایس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور سوتے سوتے دو ڈھائی بج جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی دو ڈھائی بجے سوئے تو صبح جلدی کیسے اٹھے۔ لہٰذا اگلا دن وہی افرا تفری کا ہوتا ہے بشرطیکہ وہھ دن چھٹی کا نہ ہو۔ جب موصوف تین کے بعد ہی سوتے ہیں اور اگلے روز دوپہر کو تھک ہار اُٹھ جاتے ہیں۔:p
اگر آپ میں سے کسی طالب علم کو اس منظر کشی میں اپنا عکس نظر آئے (اور شاید ہی کسی کو نظر نہ آئے:) ) تو وہ مجھے ”مورد الزام“ نہ ٹھہرائے بلکہ یہ سوچ لے کہ اس کا یہ طرز زندگی، نارمل نہیں ہے۔ نیچر سے ہٹ کر ہے۔ اور اِس افراتفری شیڈیول کا منفی اثر اُس کی ساری پیشہ ورانہ زندگی میں پڑ سکتا ہے، بلکہ لازماً پڑے گا۔ مغربی معاشرون میں تو یہ شیڈیول عام ہے اور اب ہم مشرق والے بھی اندھا دھند اسی کو فالو کئے چلے جارہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔

یوسف-2 بھائی نے تو نوجوان بچے بچیوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر سارا کچا چٹھا کھول دیا :)
سوفیصد درست نقشہ کھینچا ہے ۔۔۔۔آجکل کے بچے ایسی ہی غیر متوازن زندگی گزار رہے ہیں اور ہم والدین بےبسی کی تصویر بنے دیکھ رہے ہیں کہ ان کو کس طرح فطرت کے ساتھ چلنے کی تلقین کریں :(
 

یوسف-2

محفلین
ایسے بھلکڑ بچوں کے لیے چند مفید مشورے یا ٹپس حسب ذیل ہیں:
1۔ ہمیشہ با وضو رہنے کی کوشش کریں۔
2۔ نماز کی پابندی کریں۔
3۔ ہر فرض نماز کے بعد پیشانی پر ہاتھ رکھ کر گیارہ مرتبہ "یا قَوِی" کا وِرد کریں۔
4۔ 100گرام بادام پر 786مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر دم کرلیں،
ۃۃۃۃروزانہ رات میں ایک بادام ایک کپ پانی میں بھگو دیں،
ۃۃۃۃصبح اُٹھ کر کپ کا پانی پی لیں اور بادام کو مسالہ پیسنے کی سل پر گھس کر چاٹ لیں۔
5۔ روزانہ صبح نہار منہ ہمدرد کا"خمیرہ گاؤزباں عنبری جواہروالاخاص"2 سے 5 گرام استعمال کریں۔
--------------------------------------------------یا
ۃۃۃۃاِنڈین بچے ہندوستان فارمسی کی Tab. Mentat کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
ۃۃۃۃان شاء اللہ نسیان(یعنی بھولنے کا مرض) میں افاقہ ہوگا۔
جزاک اللہ برادر۔ ماشاء اللہ اچھے ٹپس ہیں۔ البتہ مذہبی یا دینی ٹپس کا اصل منبع ضروربتلایا کریں۔ میں ذاتی طور پر صرف ایسے ”دینی وظائف“ کا قائل ہوں، جس کی سند نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سیرت سے ملتی ہو۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ ٹپس 3 اور 4 کے اسناد سے ضرور مطلع فرمائیں۔ شکریہ
 

قیصرانی

لائبریرین
کچھ دن ہوئے یہ نظر سے گذرا کہ جب کچھ یاد کرنا ہو اور یاد نہ آ رہا ہو تو بائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچ لیں۔ ایک منٹ کے دوران یاد آ جائے گا۔ اسی طرح اگر کچھ یاد کرنا چاہ رہے ہوں تو دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچیں، آسانی سے یاد ہو جائے گا۔ شاید بی بی سی اردو پر پڑھا تھا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جزاک اللہ برادر۔ ماشاء اللہ اچھے ٹپس ہیں۔ البتہ مذہبی یا دینی ٹپس کا اصل منبع ضروربتلایا کریں۔ میں ذاتی طور پر صرف ایسے ”دینی وظائف“ کا قائل ہوں، جس کی سند نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سیرت سے ملتی ہو۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ ٹپس 3 اور 4 کے اسناد سے ضرور مطلع فرمائیں۔ شکریہ
برادرِ محترم ! یوسفِ ثانی صاحب!
:AOA:!
ہم نے جو مشورے پیش کیے ہیں، آزمودہ ہیں، ہم اور ہمارے متعدد رشتہ دار، احباب ان سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔
آپ ہی کی طرح ہم بھی ان کے اصل مآخذات( منبع) کی تلاش میں ہیں، کہیں مل جائیں تو ہمیں بھی بتلا دیجیےگا۔
یہ تو بزرگوں سے سنے ہوئے نسخے ہیں۔ ہمارے یہاں بزرگوں سے اصل مآخذ اور منبع جات کے ثبوت طلب کرنے کی
روایت کبھی نہیں رہی، خواہ وہ ہمارے والد ہوں یا داداجان، پیرو مرشد ہوں یا پھر کوئی اورعالم، عامل یا صوفی بزرگ
ان مشوروں،ٹپس یانسخوں پر عمل کرنا نہ کرنا ہر فرد کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔آپ کی مرضی،ویسے ہم آپ کی احتیاط
کی دِل سے قدر کرتے ہیں۔ اور اُس کا اِحترام بھی اس لیے ہم آپ سے زندگی میں کبھی ان نسخوں پر عمل کے لیے
اِصرار نہیں کریں گے۔
 

عسکری

معطل
جی وہ شیڈیول میں نہیں لکھی جاتیں۔ وہ بین النصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں :rollingonthefloor: جیسے بندوق کی مرمت، 600 ڈالر :) امید ہے کہ آپ بات سمجھ گئے ہوں گے
اگرچہ سادے آدمی کا پوچھا جاتا تو مین بتاتا ۔ صبح اٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے لیپ ٹاپ آن کرنا اپنے پسندیدہ معاملے چیک کر کے برش کرنا نہانا یونیفارم پہننا ڈیوتی پر جانا ۔ دوپہر کا کھانا وہین کھانا شام کو واپس آ کر یونیفارم بوٹ اتارنا نہانا سبز چائے کا ایک کپ پینا اور بیڈ پر پڑ جانا لیپ ٹاپ لے کر رات کا کھانا جیسے تیسے کھانا اور پھر جب تک جاگتے رہنا انٹرنیٹ پر مستی کرنا نیند آنے پر لیپ ٹاپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بتی بجھا کر سو جانا :grin:
 
Top