ایک مسلم طالب علم کے لئے دن بھر کا آئیڈیل (مثالی) روٹین کیسا ہونا چاہئے ؟

جناب یوسف-2 ، جناب فارقلیط رحمانی اور جناب قیصرانی صاحبان نے بہت مناسب مشورے دئے ہیں۔

صرف ایک دو باتیں اور:
1۔ تفریح کے نام پر فی زمانہ جو لغویات رائج ہیں ان سے گریز لازم ہے۔ ایک مسلم کی تفریح کو بھی مثبت اور بامقصد ہونا چاہئے۔ ایک مثالی مسلم کی زندگی میں فضولیات کے لئے وقت ہوتا ہی نہیں۔ نماز اور وضو مومن کو تازہ دم رکھتے ہیں۔
2۔ سحرخیزی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ علی الصباح اٹھیے، حوائجِ ضروریہ سے فراغت، وضو، فجر کی نماز باجماعت، اس کے بعد ناشتے تک کچھ وقت ہوتا ہے، اس میں قرآن کریم کا مطالعہ کیجئے۔ جسم، لباس، خوراک، افکار: ان چاروں کو پاک صاف رکھئے۔
3۔ رات کو جلدی سو جانا چاہئے اگر کوئی مجبوری نہ ہو، اور اگر میری آپ کی رات کی آخری سرگرمی نماز ہونی چاہئے۔ اپنے اللہ کے ساتھ رابطے میں رہئے کہ یہ اطمینانِ قلب کے لئے ضروری ہے۔
4۔ اپنے معمولات کو میکانائز نہ کیجئے، انسانی فطرت کے مطابق ان میں لچک رکھئے۔ نماز باجماعت کو خود پر لازم کیجئے۔
5۔ کوئی ایسا کام نہ کیجئے نہ کوئی ایسی چیز اپنائیے جو انسانی صحت کے لئے مضر معروف ہے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
 

یوسف-2

محفلین
برادرِ محترم ! یوسفِ ثانی صاحب!
:AOA:!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ برادر رحمانی!

1۔ ہم نے جو مشورے پیش کیے ہیں، آزمودہ ہیں، ہم اور ہمارے متعدد رشتہ دار، احباب ان سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔
آپ ہی کی طرح ہم بھی ان کے اصل مآخذات( منبع) کی تلاش میں ہیں، کہیں مل جائیں تو ہمیں بھی بتلا دیجیےگا۔

(×) ٖابل صد احترام رحمانی صاحب! دینی وظائف، دینِ اسلام کا ”عباداتی حصہ“ ہیں کوئی ”معاملاتِ دنیوی“ نہیں۔ معاملاتِ دنیوی کے لئے تو ”آزمودہ“ ہونے کی شرط ہی کافی ہے کہ دو چار اصحاب نے فلاں فلاں کام فلاں فلاں طریقہ سے کیا اور نتیجہ مثبت رہا تو یہ نسخہ ”مستند“ ٹھہرا۔ لیکن ”دینی اور مذہبی معاملات“ میں آزمودہ ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی سند لازماً قرآن و سنت سے ملنی چاہئے۔ اگر کسی ”مذہبی نسخہ“ کا مآخذ یہ نہیں ہے تو اس پر عمل کرنے سے خواہ صد فیصد ”دنیوی فائدہ“ ہورہا ہو، انفرادی طور پر بھی ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ اور ایسے کسی غیر مصدقہ دینی نسخہ کی ”تبلیغ“ تو دینی اعتبار سے بہت خسارے کا سودا ہے۔

2۔ یہ تو بزرگوں سے سنے ہوئے نسخے ہیں۔ ہمارے یہاں بزرگوں سے اصل مآخذ اور منبع جات کے ثبوت طلب کرنے کی
روایت کبھی نہیں رہی، خواہ وہ ہمارے والد ہوں یا داداجان، پیرو مرشد ہوں یا پھر کوئی اورعالم، عامل یا صوفی بزرگ

(×) یہ روایت لکھنوی (و دیگر) تہذیب کا حصہ تو ہو سکتی ہے، جس میں کہا جاتا تھا کہ ۔۔۔ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ع لیکن یہ ”اسلامی روایت“ کا حصہ ہرگز نہیں ۔ اسی لئے تو غلط طریقہ سے وضو کرنے پر کم سن حضرت حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر ایک بزرگ صحابی رسول کو اُن کی ”خطا“ سے آگاہ کردیا تھا اور صحابی رسول نے پلٹ کر اس مفہوم میں کچھ نہیں کہا کہ ۔۔۔ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ع

3۔ ان مشوروں،ٹپس یانسخوں پر عمل کرنا نہ کرنا ہر فرد کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔آپ کی مرضی،ویسے ہم آپ کی احتیاط
کی دِل سے قدر کرتے ہیں۔ اور اُس کا اِحترام بھی اس لیے ہم آپ سے زندگی میں کبھی ان نسخوں پر عمل کے لیے
اِصرار نہیں کریں گے۔


(×) یہ احقر ذاتی طور پر آپ کے بلند اخلاق اور علمی مرتبہ کی دل سے قدر کرتا ہے۔ لیکن اس ادب و احترام کے باوجود یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ انہی طرح کے خود ساختہ (اگر ان کی سند قرآن و سنت سے نہ ملے تو) ”مذہبی ٹپس اور نسخوں“ سے دینِ حق میں (دانستہ یا نا دانستہ) آمیزش کا ”آغاز“ ہوتا ہے اور لوگ رفتہ رفتہ، دُنیوی آزمودہ فوائد کے حصول کی غرض سےاصل دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا کوئی دینی نسخہ، وظیفہ یا ٹپس جب بھی اور جہاں کہیں سے ملے، جب تک اس کی سند قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، نہ تو خود اس پت عمل کرنا چاہئے، نہ اس کی نشر و اشاعت کرنا چاہئے اور نہ ہی کبھی کسی ”ضرورتمند“ کو یہ بتلانی چاہئے کہ دینی و مذہبی معاملات میں ”اپنی طرف سے“ کچھ پیش کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔

اگر اس احقر کی کوئی بات ناگوار لگے تو پیشگی دلی معذرت :)
 
  1. سب پہلے تو وہ نماز پنجگانہ کی پابند کرے
  2. اکثر لوگ رات گئے تک پڑھتے ہیں۔ یہ طریقہ حفظان صحت کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ کوشش کریں کہ رات دس ساڑھے دس تک لازماً سو جائیں اور چھہ گھنٹوں کی نیند کے بعد چار ساڑھے چار بجے اُٹھ جائیں۔ ضروریات سے فراغت کے بعد فریش ہو کر تہجد کی نماز پڑھیں اور پھر اپنی پڑھائی شروع کردیں پھر فجر کی نماز کے لئے وقفہ کریں اور فجر کے بعد کالج یونیورسٹی جانے تلک جتنا دل چاہے پڑھتے رہیں۔ ناشتہ کے بعد ہلکی پھلی چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو پڑھائی کھلے صحن میں کریں۔ اس وقت کا موسم پڑھنے اور یاد کرنے کے لئے بہترین ہوتا ہے۔
  3. کالج یونیورسٹی سے واپس آن کر دوپہر کا کھانا اور ظہر کی نماز کے بعد ایک سے دو گھنٹہ (جتنا موقع ملے) قیلولہ ضرور کیجئے۔ اس سے ایک تو آپ کی آٹھ گھنٹہ کی نیند پوری ہوجائے گی۔ دوسرے آپ دوبارہ فریش ہوجائیں گے
  4. عصر تا مغرب اگر کوئی آؤٹ ڈور گیم کھیلتے ہوں یا دوستوں کے ساتھ باہر آتے جاتے ہوں تو یہ وقت نہایت مناسب ہے۔
  5. بعد نماز مغرب رات کا کھانا کھا لینا بہتر ہوتا ہے ورنہ عشاء کی نماز سے قبل ضرور کھا لیں۔ مغرب اور عشا کے درمیان اِن ڈور مصروفیات اور تفریح کے لئے مناسب ہے جیسے ٹی وی دیکھنا، انٹر نیٹ استعمال کرنا یا اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا۔
  6. عشا کی نماز کے بعد پڑھنے بیٹھ جائیں اور گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اور سردیوں میں دو سے ڈھائی گھنٹہ پڑھ کر سو جائیں۔
پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم (جامعہ ہمدرد کے بانی)، طبیب اور ادیب ساری عمر رات دس بجے سو جایا کرتے تھے اور علی الصباح چار بجے تہجد سے قبل اُٹھ جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ سندھ کے گورنر بنے تب بھی اسی نطام الاوقات کی پابندی کرتے رہے۔ گورنری کے اعلان کے پہلے شب جب صحافی حضرات رات دس بجے کے بعد اُن سے ملنے آئے تھے کہ انہیں مبارکباد دیں اور اُن کی رائے لیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو سو چکے ہیں حالانکہ انہیں اپنی گورنری کی نامزدگی کی اطلاع مل چکی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ واحد طبیب تھے جو اپنے مقررہ شیڈیول کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں نماز فجر کے بعد کلینک کیا کرتے تھے۔ اور اُس وقت بھی مریضوں کی لمبی قطار موجود ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مجھے بھی نماز فجر کے بعد کراچی مین اُن کے کلینک پر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں اتنا زیادہ کام کرنے والا شخص بھی علی الصباح ہی پڑھنے لکھنے کا کام کیا کرتا تھا۔
بہت اچھی تحریر ہے اور بہت محنت سے لکھی گئی ہے
 
آپ کے خیال میں ایک مسلم طالب علم کے لئے دن بھر کا روٹین کیسا ہونا چاہئے ؟ محفلین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی آرااور تجاویز یہاں شیر کریں ۔ اس سے مجھ سمیت بہت سے طلبا کا فائدہ ہوگا ۔ فی الحال اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہاں بہت سے طلبا ہیں اور محفل ان کے لئے ایک تربیت گاہ طرح ہے ۔
ابھی بہتوں کےامتحانات ابھی ختم ہوئےہیں،کچھ دنوں کے بعد وہ نئے کلاسوں میں ایڈمیشن لیں گے،بہتوں کی گرما کی چھٹیاں ہو چکی ہے ایک دو ماہ بعد وہ اپنی اپنی چھٹیاں گذار کر واپس اپنے اپنے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے۔نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ ،ایسے میں اگر انھیں وقت گذارنے کا ہنر بھی معلوم ہو جائے تو یقینا انھیں کافی فائدہ ہوگا ۔
اس لئے سبھوں سے گذارش ہے کہ وہ طلباکے اعلی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے چوبیس گھنٹوں کو کیسے مرتب کریں کے وقت بھی نا ضائع ہو اور وہ اپنے مقاصد کو بھی حاصل کر سکیں بتائیں ؟
اس سلسلہ میں صحت ،معلومات عامہ،کھیل کود ،انٹرٹینمنٹ ،سیرو تفریح کے علاوہ نوجوانوں کے احساسات و جذبات کا بھی خیال رکھیں ۔ ایسا نہ ہو کہ صرف پڑھائی پڑھائی اور پڑھائی کی ہی بات کی گئی ہو ۔
پڑھائی کا سب سے بیسٹ طریقہ کیا ہے ،کون سا وقت اچھا مانا جاتا ہے ،پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ جو فائدے مند رہا ہو اسے بھی بتائیں ۔​
فجر کی نماز کے بعد ایک گھنٹہ پڑھنا پھر ناشتہ کرکے کالج جائیں واپس آکر نہاکر ظہر کی نماز ادا کرکے کھانا کھالیں پھر تھوڑا قیلولہ کریں اور کوشش کریں کے آدھے گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔ اگر گھر میں ہوں تو گھر والوں کو وقت دیں پھر عصر کی نماز کے بعد باہر کے کام کاج نپٹالیں اور اگر کسی دوست یا عزیز سے ملنا ہوتو وہ بھی عصر سے مغرب کے درمیان ہی نِپٹادیں۔ مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھائیں ایک گھنٹہ پڑھائی وغیرہ کریں پھر تھوڑا بہت ٹی وی پر نیوز وغیرہ دیکھ لیں پھر عشاء کی نماز ادا کریں اور اپنی دن بھر کی مصروفیات کو ڈائری وغیرہ پر لکھنے کی عادت ہے تو وہ اِس وقت کرلیں پھر جیسے یوسف صاحب نے بتایا ہے کہ دس بجے تک سوجائیں تو وہ بھی بہتر ہے
 

سیما علی

لائبریرین
بہت عمدہ Schedule مگر اُن کے لئیے جو بنا کر پڑھتے ہیں ہم پوری زندگی فجر کی نماز کے بعد امتحان کی تیاری کی اور ہمیشہ جو مشکل Assignment کرنا ہوتا اُسکے لئے بھی بہترین وقت یہی ہوتا !!!!!البتہ بیٹے نے ہمیشہ رات کو عشاء کی نماز پڑھ کے پڑھائی شروع کی !!!!!
رات دیر تک پڑھائی کی اور فجر کے بعد اپنا Revision کرتے !!!!ماشاء اللہ ہمیشہ اے ون رزلٹ رہے ۔۔۔
اللہ پاک سے دعا ہے زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی عطا فرمائے آمین !!!بچیوں نے ہماری طرح پڑھائی کی اور شکر الحمد للہ کامیابی حاصل کی۔۔۔چھوٹی Late starterرہیں پر بہت اچھی رہیں ڈگری The University of Wales
based in Cardiff سے کی ماشاء اللہ۔۔۔۔
 
Top