کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ایسی ہے چمک گویا اترا ماہ آنکھوں میں
دفعتاً ابھر آئی دل کی چاہ آنکھوں میں

بے حجاب ہونے کو ہے شباب بھی بیتاب
ہے اِدھر بھی بیتابی بے پناہ آنکھوں میں

ہو گیا سکوں غائب، بڑھ گئی ہے بیچینی
کوئی آ کے بس بیٹھا خواہ مخواہ آنکھوں میں

اس کا حسن ہے گویا پر کشش غزل کوئی
دل میں داد گونجی ہے، واہ واہ آنکھوں میں

میں یقیں کروں کب تک اسکے قسموں وعدوں پر
لفظوں میں اعادہ ہے، اشتباہ آنکھوں میں

لاکھ بے گناہی کا کوئی بھی کرے دعوا
ایک دن چمکتا ہے ہر گناہ آنکھوں میں

تربیت میں بچوں کی احتیاط لازم ہے
سرزنش رہے لب پر، انتباہ آنکھوں میں

کچھ بھی خواہ ہو جائے، رہنی چاہئے جاوید
دینِ استقامت کی شاہراہ آنکھوں میں
 
Top