کاشفی
محفلین
غزل
(جگر مراد آبادی)
(جگر مراد آبادی)
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
جو ترے عارض و گیسو کے درمیاں گزرے
کبھی کبھی وہی لمحے بلاے جاں گزرے
مجھے یہ وہم رہا مدتوں یہ جرات شوق
کہیں نہ خاطر معصوم پر گراں گزرے
ہر اک مقام محبت بہت ہی دلکش تھا
مگر ہم اہل محبت کشاں کشاں گزرے
جنوں کے سخت مراحل بھی تری یاد کے ساتھ
حسیں حسیں نظر آئے جواں جواں گزرے
مری نظر سے تری جستجو کے صدقے میں
یہ اک جہاں ہی نہیں سینکڑوں جہاں گزرے
ہجوم جلوہ میں پرواز شوق کیا کہنا
کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے
خطا معاف زمانے سے بد گماں ہو کر
تری وفا پہ بھی کیا کیا ہمیں گماں گزرے
مجھے تھا شکوہ ہجراں کہ یہ ہوا محسوس
مرے قریب سے ہو کر وہ ناگہاں گزرے
رہ وفا میں اک ایسا مقام بھی آیا
کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں گزرے
خلوص جس میں ہو شامل وہ دور عشق و ہوس
نہ رائیگاں کبھی گزرا نہ رائیگاں گزرے
بہت حسین مناظر بھی حسن فطرت کے
نجانے آج طبیعت پہ کیوں گراں گزرے
وہ جن کے سائے سے بھی بجلیاں لرزتی تھیں
مری نظر سے کچھ ایسے بھی آشیاں گزرے
اسی کو کہتے ہیں جنّت اسی کو دوزخ بھی
وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے
کبھی کبھی تو اسی ایک مشت خاک کے گرد
طواف کرتے ہوے ہفت آسماں گزرے
بہت حسیں سہی صحبتیں گلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
ابھی تو تجھ کو بہت ناگوار ہے ہمدم
وہ حادثات جو اب تک رواں دواں گزرے
جنہیں کہ دیدہ شأعر ہی دیکھ سکتا ہے
وہ انقلاب ترے سامنے کہاں گزرے
بہت عزیز ہے مجھ کو انھیں کی یاد جگر
وہ حادثات محبت جو ناگہاں گزرے