غیر منقسم ہندوستان میں مشاعرہ ہورہا تھا۔اس میں طرح کا ایک مصرع دیا گیا؎
چمن سے آرہی ہے بوئے کباب
مصرع پر بڑے بڑے شعراء نے طبع آزمائی کی لیکن ڈھنگ کی گرہ کوئی نہ لگا سکا۔ایک سرپھرے نے قسم کھائی کہ جب تک گرہ نہ لگالوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا۔ وہ ہر صبح دریا کے کنارے نکل جاتا اور اونچی آواز سے یہ...
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے
دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانہ ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانہ ہے
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانہ ہے...
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد...
جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا...
حیرت عشق نہیں شوق جنون پوش نہیں
(اس شعر میں کچھ جگہ پوش کی جگہ گوش لکھا ہے کیا کوئی صاحب بتا سکتے ہیں اس میں سے صحیح کونسا ہے )
بے حجابانہ چلے آو مجھے اب ہوش نہیں
(ادھر میرے زہن میں یہ سوال آتا ہے کہ جنون اور ہوش نہ رہنے میں کیا فرق ہوا پھر۔ کیا جنون مصنوعی ہے محض اداکاری ہے
شہ بے خودی نے...
غزل
مذہبِ عشق کر قبول ، مسلکِ عاشقی نہ دیکھ
محشرِ التجا تو بن صورتِ ملتجی نہ دیکھ
دل کو مٹا کے عشق میں دل کی طرف کبھی نہ دیکھ
ہو کے نثارِ زندگی حاصلِ زندگی نہ دیکھ
جان کو جب گُھلا چکا جان کی فکر ہی نہ کر
شمع کو جب بجھا چکا ، شمع کی روشنی نہ دیکھ
ناصحِ کم نگاہ سے کون یہ کہہ کے سر کھپائے...
غزل
تیری نگاہِ ناز بایں شانِ اضطراب
ہم جانِ دردِ عشق و ہم ایمانِ اضطراب
اب تک تو تیرے فیض سے اے عشقِ معتبر
داغِ سکوں سے پاک ہے دامانِ اضطراب
خُوگر نہیں ہے تُو تو بتا ، اے نگاہِ شوق
پھر کون ہے یہ سلسلہ جنبانِ اضطراب
ہر چند نجدِ عشق سے اُٹھے ہزار قیس !
نکلا مگر نہ ایک بھی شایانِ اضطراب...
درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے
پھر کوئی مہرباں نہ ہو جائے
سعیِ غم رائیگاں نہ ہو جائے
دور ہے عرصۂ عدم آباد
کم کوئی ناتواں نہ ہو جائے
دل کو لے لیجئے ، جو لینا ہے
پھر یہ سودا ،گراں نہ ہو جائے
آسماں کو نہ دیکھیے تن کر
پھر یہ بوڑھا جواں نہ ہو جائے
ڈر ہے مجھ کو کہ میری عرضِ...
غزل
حسنِ معنی کی قسم جلوۂ صورت کی قسم
تُو ہی فردوس ہے فردوسِ محبت کی قسم
حُسن کے معجزۂ وحدت و کثرت کی قسم
چشمِ حیرت میں ہی سب کچھ سرِ حیرت کی قسم
تُجھ کو دیکھا مگر اِسطرح کے دیکھا ہی نہیں
اپنی کم مائگیِ جرات و ہمت کی قسم
مُجھ سے کچھ دل نے کہا تھا ابھی سچ ہوکہ نہ ہو
حُسنِ کافر، تری معصوم...
سینے میں اگر ہو دلِ بیدارِ محبت
ہر سانس ہے پیغمبرِ اسرارِ محبت
وہ بھی ہوئے جاتے ہیں طرف دارِ محبت
اچھے نظر آتے نہیں آثارِ محبت
ہشیار ہو، اے بے خود و سرشارِ محبت
اظہارِ محبت ! ارے اظہارِ محبت
تا دیر نہ ہو دل بھی خبردارِ محبت
اک یہ بھی ہے اندازِ فسوں کارِ محبت
توہینِ نگاہِ کرم یار کہاں تک؟
دم...
اب کہاں زمانے میں دُوسرا جواب اُن کا
فصلِ حُسن ہے اُن کی، موسمِ شباب اُن کا
اوج پر جمال اُن کا، جوش پر شباب اُن کا
عہدِ ماہتاب اُن کا، دَورِ آفتاب اُن کا
عرضِ شوق پر میری پہلے کُچھ عتاب اُن کا
خاص اِک ادا کے ساتھ اُف وہ پِھر حجاب اُن کا
رنگ و بُو کی دُنیا میں اب کہاں جواب اُن کا
عِشق...
جب تک انساں پاک طینت ہی نہیں
علم و حکمت، علم و حکمت ہی نہیں
وہ محبت، وہ عداوت ہی نہیں
زندگی میں اب صداقت ہی نہیں
سینۂ آہن بھی تھا جس سے گُداز
اب دِلوں میں وہ حرارت ہی نہیں
آدمی کے پاس سب کچھ ہے، مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
بچ کے رہ جائے، وہ غنچہ ہی کہاں؟
گھُٹ کے رہ جائے، وہ نکہت ہی نہیں
حُسن...
عقل اک تجربہ ہے پیار نہیں
عشق جب تک بروئے کار نہیں
ہیں تو دیوانہء بہار بہت
کوئی شائستہء بہار نہیں
زندگی ہے تمام فکر و عمل
زندگی وقت کا شمار نہیں
حسن رہتا نہ اس قدر دلکش
خیر گذری کہ پائیدار نہیں
دل کی کلیاں نہ جس سے کھل جائیں
اور کچھ ہو تو ہو، بہار نہیں
عشق اپنا پیام خود ہے جگرؔ
عشق مرہونِ...
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہلِ شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگانِ...
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہلِ شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگانِ...
جگر سے منسوب کی گئی یہ غزل سوشل میڈیا پر پڑھی ہے۔
شعر اچھے لگے سو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔
جناب محمد وارث سے گذارش ہے کہ تصدیق کر لیں۔
غزل
کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی
ہوتی ہی نہیں کم شبِ فرقت کی سیاہی
رخصت ہوئی کیا شام کے ہمراہ سحر بھی؟
یہ مجرمِ...
منصوُر ہر اِک دَور میں بیدار ہُوا ہے
افسانہ کہِیں ختم سَر ِدار ہُوا ہے
مُدّت میں جو اُس شوخ کا دِیدار ہُوا ہے
تا دیر ، سمجھنا مجھے دُشوار ہُوا ہے
بے نام و نِشاں ایسا بھی اِک وار ہُوا ہے
ہر عزم، ہر اِک حوصلہ بیکار ہُوا ہے
کیا کیا نہ تپایا ہے اِسے آتش ِغم نے
تب جا کے یہ دِل شُعلۂ بیدار ہُوا...
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...
کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا...
منتخب اشعار جگر مراد آبادی
.......
دل کہ تھا جانِ زیست آہ جگرؔ
اسی خانہ خراب نے مارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکوہء موت کیا کریں کہ جگرؔ
آرزوئے حیات نے مارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں ہی جفا جو ہیں جگرؔ عشق ہو یا حسن
اک یار نے لوٹا...