جگر درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے ۔ جگر مراد آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے

پھر کوئی مہرباں نہ ہو جائے
سعیِ غم رائیگاں نہ ہو جائے

دور ہے عرصۂ عدم آباد
کم کوئی ناتواں نہ ہو جائے

دل کو لے لیجئے ، جو لینا ہے
پھر یہ سودا ،گراں نہ ہو جائے

آسماں کو نہ دیکھیے تن کر
پھر یہ بوڑھا جواں نہ ہو جائے

ڈر ہے مجھ کو کہ میری عرضِ سکوت
آپ ہی کی زباں نہ ہو جائے

دردِ دل کیا ہی مہماں ہے اگر
اشک بن کر رواں نہ ہو جائے

موت سے ڈر نہیں مگر ہے یہ وہم
عشق بے خانماں نہ ہو جائے

دل میں ڈوبا ہوا ہے جو نشتر
میرے دل کی زباں نہ ہو جائے

قسمتوں سے ملا ہے دردِ حبیب
کہیں آرامِ جاں نہ ہو جائے

عشق اپنی خوشی سے کون کرے
عشق اگر ناگہاں نہ ہو جائے

آہ کیجے، مگر لطیف ترین
لب تک آ کر دھواں نہ ہو جائے

عشق کر ہی چکا تھا اپنا کام
دل اگر درمیاں نہ ہو جائے

عشق میں جتنے بدگماں ہیں ہم
یوں کوئی بدگماں نہ ہو جائے

آہ، اِک تیر ہی سہی، لیکن
آشنائے کماں نہ ہو جائے

خاکِ سیرابیِ بہار اگر
آنکھ شبنم فشاں نہ ہو جائے

حسن کا آئینہ تو دل ہے مگر
یہی خود درمیاں نہ ہوجائے

تا کجا انتظارِ خُلد جگرؔ!
حُور اک دِن یہاں نہ ہو جائے

(جگرؔ مراد آبادی)
 
Top