جگر اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے !!!!

سیما علی

لائبریرین
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے

دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانہ ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانہ ہے

ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانہ ہے

وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانہ ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانہ ہے

شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانہ ہے
فطرت مرا آئینا قدرت مرا شانہ ہے

جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانہ ہے

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے

آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانہ ہے

آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانہ ہے

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانہ ہے

اے عشق جنوں پیشہ ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستم گر کو ہنس ہنس کے رلانا ہے

تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی
آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھیے اب وہ ہیں آئینہ ہے شانہ ہے

تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے

یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا
جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانہ ہے

مجھ کو اسی دھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے وہ اب آئے لازم انہیں آنا ہے

خودداری و محرومی محرومی و خودداری
اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانہ ہے

اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے

آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے
 
Top