کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

اُف کیسے ہو بیان وہ پیکر کمال کا
اوپر سے تاج زلفوں کا سر پر کمال کا

رُخ پر ہے چاند کی سی سفیدی کمال کی
آنکھوں میں گہرا نیلا سمندر کمال کا

ملبوس سارا جسم ہے ریشم میں حسن کے
زریں حیا کا اس پہ ہے زیور کمال کا

سینے میں گھس کے دیتا ہے اک زندگی نئی
ہوتا ہے انکے طیش کا خنجر کمال کا

آنکھیں چراتے ہیں وہ مجھے دیکھ کر کے جب
پوچھو نہ کیسا ہوتا ہے منظر کمال کا

اے زلفِ یار چہرے پہ میرے بکھر کے دیکھ
ایسا لگے گا پایا مقدر کمال کا

اڑتا ہے چاندنی میں نہایت سکوں کے ساتھ
جذباتِ عشق کا یہ کبوتر کمال کا

گردش اسی کے چاروں طرف ہے حیات کی
عالم کو عشق مل گیا محور کمال کا

پرواز آسمان میں، نظریں زمین پر
میرے تخیلات کا شہپر کمال کا

آتی سکوں کی نیند ہے اور بہترین خواب
ثابت ہوا ہے گھر کا یہ بستر کمال کا
 
Top