صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین ، آپ کی غزل کا یہ شعر سطحی سا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ یہ شعر ایک سپاٹ سا بیانیہ ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اظہار کا یہ اسلوب وہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا کہ جو مطلوب ہے ۔ مصرعِ اول میں "اس" کا لفظ بے معنی حشو و زائد میں شمار ہوگا۔ "اس" ایک لفظِ اشارہ ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس محبت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔نظم یا مسلسل غزل میں تواس لفظِ اشارہ کے استعمال کی صورت ممکن ہوسکتی ہے لیکن غزل کے مفردشعر میں یہاں اس کا کوئی محل نہیں ۔ جدائی کے بیان سے محبت کا وجود ویسے ہی ثابت ہورہا ہے سو محبت کہنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ تیسری بات یہ کہ "ہر شام" کہنے کی کوئی معنویت نظر نہیں آ رہی۔ شام ہی کیوں؟؟ چوتھی بات یہ کہ خوف کی بھی کوئی خاص توجیہہ یا توضیح نظر نہیں آتی۔( اگرچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاعر عرصہٌ ہجر میں مختلف قسم کے اندیشوں یا خوف سے گزررہا ہے)۔

میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔
یعنی کسی غیر مرئی شے کوایک شخصیت یا کردار کا روپ دے دینا۔ شاعری میں اس تکنیک کے مناسب استعمال سے ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قاری کے ذہن میں ایک بہترتصویر جنم لیتی ہے اور شعر کے ابلاغ میں مدد دیتی ہے۔ مثال کے طور پر فیض کی یہ نظم دیکھیے:

اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
۔ ۔ ۔ الخ
واہ واہ ۔ ۔ اس کو تو یاد کرنا چاہیے۔!!
اس نظم میں دل ، درد اور ہجر کی تجسیم کرکے شاعر نے ایک تمثیل پیدا کردی ہے ۔ چنانچہ نظم میں ایک ساکت سے منظر نامے کے بجائے حرکت اور فعالیت نظر آتی ہے ۔
اسی تکنیک کو آپ کے زیرِ بحث شعر پر استعمال کیا جائے تو میری رائے میں ایک صورت یہ پیدا کی جاسکتی ہے:

اپنے شانوں پہ جدائی کے عذابوں کو لیے
شہرِ فرقت میں ہر اک گام ٹھٹکتی ہے غزل

اس طرح سے میری رائے میں بیانیے کا سپاٹ پن ختم ہوجاتا ہے اورقاری تک ایک بہتر لفظی تصویر پہنچتی ہے ۔ دوسرے مصرع کو کئی اور صورتیں دے کر مختلف منظر نامے بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔
نہ صرف سپاٹ پن ختم ہوا بلکہ ایسا لگا کہ تانبے کے پرانے برتن پر قلعی کر دی گئی ہو۔ زبردست بنا دیا ہے اس شعر کو آپ نے !! کیا اس کو مزید سوچنے کی ضرورت ہے؟

مرزا غالب کا استاد ذوق سے ایک سوال؟؟ :noxxx:
یہ بس دن میں ایک خواب دیکھ رہی ہوں۔۔ ذہن کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ وللہ :noxxx:
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
سب سے پہلے تو یہ سلسلہ شروع کرنے كے لیے محترم الف عین صاحب کا اور جاسمن بہن کا، اور خاکسار کو یہاں مدعو کرنے كے لیے محمد عبدالرؤوف بھائی کا شکریہ ! میں خود کو تنقید کا اہل نہیں سمجھتا . لیکن یہ کام اِس امید پر کر رہا ہوں کہ شاید اِس کوشش میں مجھے خود اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے .

صابرہ بہن، آپ کی غزل نے مجھے اپنی ایک بیس سال پرانی غزل یاد دلا دی جس میں دھڑکتا، تھرکتا وغیرہ قوافی تھے . خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا .آپ كے دو اشعار پر کچھ باتیں عرض ہیں . ممکن ہے آپ كے لیے کار آمد ثابت ہوں .
کیا بات ہے آپ کی کسر نفسی کی! آپ کی غزل سننے یا پڑھنے کی خواہش مند ہوں کہ آپ نے ان قوافی کا کیسے استعمال کیا ہے۔
چھٹے شعر میں ’نغمے‘ موصوف ہے اور ’جن پر عشق کی راہوں میں غزل تھرکتی ہے‘ صفت ہے . یہاں فوکس ’نغموں‘ پر آ گیا ہے، جب کہ ہونا ’غزل‘ پر چاہیے . میری ناچیز رائے میں آپ ’وہ نغمے جن پر‘ کی جگہ ’جو نغمے ان پر‘ کہیے اور پِھر فرمائیے کہ غزل ان نغموں سے کیا ترغیب پاتی ہے جو دِل كے تاروں سے نکلتے ہیں . علاوہ اَز ایں ’عشق کی راہوں میں‘ نکال دیجئے . اِس کی چنداں ضرورت نہیں . ’ دِل كے تاروں‘ سے پہلے ہی معلوم ہو گیا کہ معاملہ راہ عشق کا ہے . پِھر ’راہوں میں تھرکنا‘ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا . ’عشق کی راہوں میں‘ والی جگہ کسی بہتر مصرف كے لیے استعمال کیجیے . یہاں آپ اس کیفیت کو بیان کر سکتی ہیں جس میں غزل تھرکتی ہے مثلاً ’ایک دیوانی سی بے باک تھرکتی ہے غزل .‘
جی بہتر ۔۔ اچھے نکات اٹھائے آپ نے! آپ کی شعری فکر کا کچھ اندازہ ہو رہا ہے۔ ماشا اللہ
ساتویں شعر میں ’جذبات دھڑکنا‘ کی ترکیب میری نگاہ سے نہیں گزری . دِل بذات خود دھڑکتا ہے . اس میں کسی اور شئے کا دھڑکنا نا قابل فہم ہے . پِھر ’شبستان‘ میں ’غزل‘ كے دھڑکنے کا واقعہ بھی عجیب ہے . شبستان انسان كے سونے کی جگہ ہے . وہاں غزل جیسی غیر مادی چیز کیسے موجود ہو سکتی ہے . شاید آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ غزل ذہن میں ہے، ذہن جسم میں اور جسم شبستان میں، اِس لیے غزل بھی شبستان میں ہوئی . اگر ہاں، تو یہ تعلق دور از قیاس ہے .اگر مراد یہ ہے کہ غزل کی آمد شبستان میں ہوتی ہے ، تو یہ موقف صفائی سے ادا نہیں ہوا . لفظ ’بےتاب‘ کا استعمال بھی وضاحت طلب ہے . میری ناچیز رائے میں آپ اِس شعر كے خیال اور بیان پر بغور نظر ثانی کریں .
آپ کی باتیں واقعی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ اس زمانے کے اشعار ہیں جب لگتا تھا کہ قدرت نے ہر قافیہ ہمیں شعر کہنے کے لیے فراہم کیا ہے۔ :grin: تو ہر ہر قافیہ کے استعمال میں آپ کو خالص لوجیکل سوچ تو میسر نہیں ہو سکتی۔ اس کا اب احساس ہو رہا ہے۔

آپ کا قیمتی وقت دینے کا شکریہ۔ ان باتوں کو کسی بھی غزل کی تصحیح کرنے سے پہلے ان شا اللہ ضرور سامنے رکھنا چاہوں گی۔ آپ سے دو سوالات پوچھنا چاہتی ہوں۔ جب بھی فرصت ہو تو جوابات عنایت کیجیے گا۔ آپ کا پیشگی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔

1- آپ جب بہت سے قوافی دیکھتے ہیں تو ان میں سے کچھ قوافی کو کن باتوں کو مد نظر رکھ کر مسترد کرتے ہیں؟
2- آپ شعر کو کیسے سوچتے ہیں؟
 

سیما علی

لائبریرین
یال میں بھی بعض اوقات ایک شعر ، ایک طویل کہانی ، ایک داستان کو بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ چند لفظوں میں بہت بڑی حکایت بیان ہو جاتی ہے۔
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئی
حضرت یعقوب علیہ السلام کا پورا واقعہ بیان ہے ۔۔۔
 
کیا بات ہے آپ کی کسر نفسی کی! آپ کی غزل سننے یا پڑھنے کی خواہش مند ہوں کہ آپ نے ان قوافی کا کیسے استعمال کیا ہے۔

جی بہتر ۔۔ اچھے نکات اٹھائے آپ نے! آپ کی شعری فکر کا کچھ اندازہ ہو رہا ہے۔ ماشا اللہ

آپ کی باتیں واقعی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ اس زمانے کے اشعار ہیں جب لگتا تھا کہ قدرت نے ہر قافیہ ہمیں شعر کہنے کے لیے فراہم کیا ہے۔ :grin: تو ہر ہر قافیہ کے استعمال میں آپ کو خالص لوجیکل سوچ تو میسر نہیں ہو سکتی۔ اس کا اب احساس ہو رہا ہے۔

آپ کا قیمتی وقت دینے کا شکریہ۔ ان باتوں کو کسی بھی غزل کی تصحیح کرنے سے پہلے ان شا اللہ ضرور سامنے رکھنا چاہوں گی۔ آپ سے دو سوالات پوچھنا چاہتی ہوں۔ جب بھی فرصت ہو تو جوابات عنایت کیجیے گا۔ آپ کا پیشگی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔

1- آپ جب بہت سے قوافی دیکھتے ہیں تو ان میں سے کچھ قوافی کو کن باتوں کو مد نظر رکھ کر مسترد کرتے ہیں؟
2- آپ شعر کو کیسے سوچتے ہیں؟
صابرہ بہن ، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میری خامہ فرسائی کو خوش دلی سے لیا . اپنی ناچیز غزل پابند بحور شاعری والے خانے میں پیش کر رہا ہوں . دیکھ لیجئیگا . آپ نے دلچسپ سوال پوچھے ہیں . حسب لیاقت جواب دے رہا ہوں .
قوافی كے انتخاب کا بنیادی اصول شعر کا معیار ہونا چاہیے . اگر اچھا شعر تخلیق نہیں ہو سکتا تو قافیہ بیکار ہے . اپنی ناچیز شاعری كے سفر کی شروعات میں میری کوشش رہتی تھی کہ ہر ممکن قافیہ استعمال کروں . بہت بعد میں سمجھ میں آیا کہ زور معیار پر ہونا چاہیے ، مقدار پر نہیں . اب یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ اچھے شعر کی نشان دہی کا شُعُور کیسے آتا ہے . اچھے شعر کی تعریف اس كے عناصر کی رو سے کئی ماہرین نے بیان کی ہے لہذا میں صرف نشان دہی کی بات کروں گا . میں جو عرض کر رہا ہوں وہ میرے ذاتی تجربے کا نچوڑ ہے . دیگر احباب کا اِس سے متفق ہونا ضروری نہیں . میرے خیال میں شاعری ( یہ بات دیگر فنون پر بھی صادق آتی ہے ) کا سفر تِین مراحل سے گزرتا ہے . پہلے مرحلے میں شاعر شعر محض کہنے كے لیے کہتا ہے . اشعار کو کسی پیمانے پر تولنے کی ضرورت نہیں سمجھتا . اِس مرحلے میں شعر کسی کو بھی پسند آ جائے تو لگتا ہے کوشش کامیاب ہو گئی . کچھ عرصہ گزرنے پر شاعر کو چند ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو اس کی نگاہ میں اچھے شعر كے پارکھی ہوتے ہیں . اِس دوسرے مرحلے میں شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی شاعری ایسے لوگوں کی پسند پر کھری اترے . کچھ اور وقت گزرنے پر شاعر خود اپنا سب سے بڑا ناقد بن جاتا ہے . اِس تیسرے مرحلے میں اچھے شعر كے ان عناصر کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آتا ہے جو اساتذہ نے بیان کیے ہیں . یہاں آ کر شاعر کو وہی شعر بھاتا ہے جو اس کی اپنی پسند پر پُورا اترے . اب اپنی پسند پختہ ہو چکی ہوتی ہے اور پہلے مرحلے کی طرح ذہن سے نکلا ہوا ہر شعر اچھا نہیں لگتا . اِس مقام پر اپنی ہی تخلیق کو رد کرنا آسان ہو جاتا ہے . نتیجتاً غزل سے وہ سارے شعر اور قوافی منظر عام پر آنے سے پہلے ہی خارج ہو جاتے ہیں جنہیں خارج ہو جانا چاہیے .
آپ کو علم ہو گا کہ شعر کی تخلیق یا تو آمد سے ہوتی ہے یا آورد سے . مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میری ناچیز شاعری میں دونوں کار فرما ہیں . کبھی کبھی فکر مہربان ہوتی ہے اور اچھے اشعار آن کی آن میں ذہن سے بر آمد ہو جاتے ہیں . اور کبھی کسی خاص مضمون ، ردیف اور قافیہ کو باندھنے کی اِرادی کوشش ہوتی ہے . لیکن راستہ کوئی بھی ہو ، منزل تک پہنچنے کی شرط وہی ہوتی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے ، یعنی اگر شعر اچھا نہیں ہے تو اسے غزل میں نہیں ہونا چاہیے . شعر کی تخلیق میں ایک چیز جو میرے لیے بہت کارگر ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ میں شعر کو آخری شکل دینے میں جلدی نہیں کرتا . شعر کہہ کر چھوڑ دیتا ہوں اور کچھ عرصہ بعد اس پر نظر ثانی کرتا ہوں . اِس طرح اکثر بہت ساری خامیاں خود ہی نظر آ جاتی ہیں . جب تک پُورا اطمینان نہیں ہو جاتا ، نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے . میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ آخر میں جو تخلیق منظر عام پر آتی ہے ، وہ ہر عیب سے پاک ہوتی ہے ، لیکن اپنی جانب سے صفائی کی پوری کوشش کرتا ہوں . :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
صابرہ امین قربانی کا بکرا بننے پر آپ کو دلی مبارکباد۔۔۔ امید ہے بقیہ شعراء ان نکات سے فیض حاصل کرنے کے بعد اپنی غزلیات یہاں لگانے کا قصد کریں گے۔ ورنہ تو مقصد ہی جاتا رہے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اب میں احتیاط کرتا ہوں۔۔۔ بات کرتے ۔۔۔۔ صابرہ کی زود رنجی کا اندازہ نہیں ہے۔ ورنہ میں تو بہت کچھ اور بھی لکھتا۔
صابرہ امین بڑی بہن ہیں اگر ڈانٹ بھی دیا تو کیا ہے 😜
پہلے ڈانٹ پڑتی یا نہیں اب "بڑی بہن" کہنے پر تو ڈانٹ پڑے ہی پڑے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہاں اس پہلی تنقیدی نشست میں ابھی کافی ٹائم ہے ۔اپنے احباب میں سے محمد احسن سمیع راحلؔ بھائی تشریف نہیں لائے اظہار خیال کے لیے ۔ ان سے بھی گزارش ہے کہ جیسے بھی سہولت میسر ہو شراکت فرمائیں ۔
مکرمی عاطف بھائی ۔۔۔ آپ کا حسن ظن اپنی جگہ ۔۔۔ جس کے لیے میں ممنون و متشکر ہوں ۔۔۔ تاہم جس نہج پر اس لڑی میں اب تک گفتگو ہوئی ہے، وہ میرے لیول سے کافی اوپر ہے :)
پہلے پہل میرا واقعی کچھ لکھنے کا ارادہ تھا مگر اب سوچ رہا ہوں کہ پہلے اچھی طرح ظہیر بھائی اور دیگر کے جوابات کا مطالعہ کروں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین قربانی کا بکرا بننے پر آپ کو دلی مبارکباد۔۔۔ امید ہے بقیہ شعراء ان نکات سے فیض حاصل کرنے کے بعد اپنی غزلیات یہاں لگانے کا قصد کریں گے۔ ورنہ تو مقصد ہی جاتا رہے گا۔
ہاہاہا ۔ ۔ خیر مبارک ۔۔ قربانی کا بکرا بننے کے لیے اپنے آپ کو خوشدلی سے پیش اس لیے کیا ہے کہ جو کچھ بھی شاعری مجھ سے ہو رہی ہے اس کو ٹھیک سے سمجھ سکوں اور بہتری لا سکوں۔ کئی بار توبہ کی کہ اب نہیں لکھنا۔ مگر نہ جانے کیسے اشعار ذہن میں آ کر مجبور کر دیتے ہیں کہ ان کو لکھے بنا چارہ ہی نہیں رہتا!کتابیں پڑھ کر سمجھنے کی فرصت میسر نہیں تو دل اداس بھی ہوتا ہے کہ کیسے اچھے اور برے شعر میں تمیز کی جائے۔ اردو محفل پر اتنے قابل دماغ ہیں کہ اگر ان کے تجربات سے ہی استفادہ کر لوں تو کئی کتابوں پر بھاری ہو گا۔ بحیثیت ایک استاد یہ سمجھتی ہوں کہ اساتذہ سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ فورم تو ایک نعمت سے کم نہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ دوسرےشعراء بھی اپنی شاعری کی خامیاں یا مسائل اس فورم پر رکھ سکتے ہیں۔ کافی کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ان شا اللہ

ورنہ ہر مہینے صابرہ امین کی ہی نئی غزل سامنے ہو گی! :biggrin: اس بات کو سنجیدہ نہ لیا جائے !
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ بہن ، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میری خامہ فرسائی کو خوش دلی سے لیا . اپنی ناچیز غزل پابند بحور شاعری والے خانے میں پیش کر رہا ہوں . دیکھ لیجئے گا
آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری خواہش کو اتنا جلدی پورا کر دیا۔ اللہ آپ کی لیاقت اور قابلیت میں برکت دے۔ آمین!
اپنی ناچیز شاعری كے سفر کی شروعات میں میری کوشش رہتی تھی کہ ہر ممکن قافیہ استعمال کروں . بہت بعد میں سمجھ میں آیا کہ زور معیار پر ہونا چاہیے ، مقدار پر نہیں .
جی یہی مسئلہ درپیش ہے۔
اِس دوسرے مرحلے میں شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی شاعری ایسے لوگوں کی پسند پر کھری اترے . کچھ اور وقت گزرنے پر شاعر خود اپنا سب سے بڑا ناقد بن جاتا ہے .
متفق۔
اِس تیسرے مرحلے میں اچھے شعر كے ان عناصر کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آتا ہے جو اساتذہ نے بیان کیے ہیں . یہاں آ کر شاعر کو وہی شعر بھاتا ہے جو اس کی اپنی پسند پر پُورا اترے . اب اپنی پسند پختہ ہو چکی ہوتی ہے اور پہلے مرحلے کی طرح ذہن سے نکلا ہوا ہر شعر اچھا نہیں لگتا . اِس مقام پر اپنی ہی تخلیق کو رد کرنا آسان ہو جاتا ہے . نتیجتاً غزل سے وہ سارے شعر اور قوافی منظر عام پر آنے سے پہلے ہی خارج ہو جاتے ہیں جنہیں خارج ہو جانا چاہیے .
اوہ، تو یہ مرحلہ آ چکا ہے!
آپ کو علم ہو گا کہ شعر کی تخلیق یا تو آمد سے ہوتی ہے یا آورد سے . مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میری ناچیز شاعری میں دونوں کار فرما ہیں . کبھی کبھی فکر مہربان ہوتی ہے اور اچھے اشعار آن کی آن میں ذہن سے بر آمد ہو جاتے ہیں . اور کبھی کسی خاص مضمون ، ردیف اور قافیہ کو باندھنے کی اِرادی کوشش ہوتی ہے . لیکن راستہ کوئی بھی ہو ، منزل تک پہنچنے کی شرط وہی ہوتی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے ، یعنی اگر شعر اچھا نہیں ہے تو اسے غزل میں نہیں ہونا چاہیے . شعر کی تخلیق میں ایک چیز جو میرے لیے بہت کارگر ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ میں شعر کو آخری شکل دینے میں جلدی نہیں کرتا . شعر کہہ کر چھوڑ دیتا ہوں اور کچھ عرصہ بعد اس پر نظر ثانی کرتا ہوں . اِس طرح اکثر بہت ساری خامیاں خود ہی نظر آ جاتی ہیں . جب تک پُورا اطمینان نہیں ہو جاتا ، نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے . میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ آخر میں جو تخلیق منظر عام پر آتی ہے ، وہ ہر عیب سے پاک ہوتی ہے ، لیکن اپنی جانب سے صفائی کی پوری کوشش کرتا ہوں . :)
واہ، کتنے سہل انداز میں آپ نے تمام مراحل کا احاطہ کیا ہے۔ میں آپ کی سپاس گزار ہوں کہ آپ نے میرے سوالات کو اہم سمجھا اور فوراً اپنا قیمتی وقت نکال کر ان کے جوبات عنایت کیے۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
اب میں احتیاط کرتا ہوں۔۔۔ بات کرتے ۔۔۔۔ صابرہ کی زود رنجی کا اندازہ نہیں ہے۔ ورنہ میں تو بہت کچھ اور بھی لکھتا۔
آپ کی بات سمجھ سکتی ہوں۔ میں بھی یہاں کئی لوگوں سے چاہتے ہوئے بھی بات نہیں کر پاتی محض اس لیے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے! مگر آپ خاطر جمع رکھیے کہ صابرہ امین نازک مزاج ہرگز نہیں کہ مذاق یا ہلکی پھلکی گفتگو کو برداشت نہ کر سکیں۔
یقین نہ آئے تو سیما آپا سے پوچھ لیجیے۔ کراچی میں تو ان سے اکثر بات ہو جاتی تھی۔ بہت ہی نفیس خاتون ہیں اور اچھی حس مزاح رکھتی ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
یقین نہ آئے تو @سیما آپا سے پوچھ لیجیے۔ کراچی میں تو ان سے اکثر بات ہو جاتی تھی۔ بہت ہی نفیس خاتون ہیں اور اچھی حس مزاح رکھتی ہیں۔
جیتی رہیے پروردگار شاد و آباد رکھے آمین ۔آپ سب کی محبت ہمارا قیمتی اثاثہ ہے صابرہ بٹیا بہت سارا پیار اور ڈھیروں دعائیں ۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی بات سمجھ سکتی ہوں۔ میں بھی یہاں کئی لوگوں سے چاہتے ہوئے بھی بات نہیں کر پاتی محض اس لیے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے! مگر آپ خاطر جمع رکھیے کہ صابرہ امین نازک مزاج ہرگز نہیں کہ مذاق یا ہلکی پھلکی گفتگو کو برداشت نہ کر سکیں۔
یقین نہ آئے تو سیما آپا سے پوچھ لیجیے۔ کراچی میں تو ان سے اکثر بات ہو جاتی تھی۔ بہت ہی نفیس خاتون ہیں اور اچھی حس مزاح رکھتی ہیں۔
سیما آپا بہت نفیس ہیں۔ لیکن ہم ذرا آبگینوں سے سختی کر لیتے ہیں۔ اس لیے احتیاط کرتے ہیں۔ خوش رہیے سدا۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہم تو ہزار بار روئیں گے اگر کوئی ہمیں رلائے گا ۔ مژگاں کھولے بغیر آنسوؤں کے سیلاب میں شہر کو ڈبو دیا جائے گا!
معذرت ! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ زنانہ غزل ہے ۔
آپ بھی عاشقی کا وہ زمانہ یاد کیجیے جب چپکے چپکے رات دن آنسو بہایا کرتے تھے!

بھئی آپ نہیں ، اپنے مہدی حسن صاحب! :grin:
حامد کی ٹوپی محمود کے سر تو سنتے آئے تھےلیکن اب آپ کی برکت سے ایک نئی ضرب المثل ایجاد ہوگئی ۔ غلام علی کا سُر ، مہدی حسن کے سَر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنے شانوں پہ جدائی کے عذابوں کو لیے
شہرِ فرقت میں ہر اک گام ٹھٹکتی ہے غزل
نہ صرف سپاٹ پن ختم ہوا بلکہ ایسا لگا کہ تانبے کے پرانے برتن پر قلعی کر دی گئی ہو۔ زبردست بنا دیا ہے اس شعر کو آپ نے !! کیا اس کو مزید سوچنے کی ضرورت ہے؟
مرزا کا سوال سن کر استاد ذوق تو چپ ہیں لیکن مصحفی کہتے ہیں کہ جی ہاں اس پر ابھی مزید سوچنے کی ضرورت ہے۔ :)

نوک پلک سنوارنا:

اس محاورے کا پس منظر کیا ہوسکتا ہے وہ صاف ظاہر ہے۔ اچھی طرح تیار ہونے کے بعد (بلکہ تیار شیار ہونے کے بعد :) ) خواتین جو سلوک ڈریسر کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے رخِ روشن کے ساتھ کرتی ہیں ویسا ہی سلوک شعر گوئی کے آخری مرحلے میں شاعر اپنے شعر کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی شعر کی نوک پلک درست کرتا ہے۔ جب شاعر اپنے شعر کے "ڈھانچے" سے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اب وزن بھی برابر ہوگیا، مضمون کی ادائیگی کے لیے ضروری کلیدی الفاظ بھی میسر آگئے ، پیرایہ بھی مناسب اختیار کرلیا تو پھر وہ اپنی توجہ زبان و بیان کی باریکیوں اور شعر کے عیوب و محاسن پر مرکوز کرتا ہے۔ الفاظ پر گہری نظر ڈالتا ہے ، ان کے متبادلات پر غور کرتا ہے۔ الفاظ کی نشست و برخواست کو ادھر ادھر بدل کر مصرع کو رواں تر اور چست بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ عیب تنافر کو دیکھتا ہے ۔ حشو و زوائد کو نکالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ غرض یہ کہ ہر ممکن طریقے سے مصرع کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔
جس طرح نوک پلک درست کرنے کے چکر میں دعوت میں دو گھنٹے تاخیر سے پہنچنا نارمل بات ہے اسی طرح غزل کا سامعین کے سامنے تاخیر سے جلوہ افروز ہونا بھی متوقع سمجھا چاہیئے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ نوک پلک سنوارنے میں ذرا تاخیر تو ہوجاتی ہے لیکن وڈیو اچھی بنتی ہے ۔ :D

اب مذکورہ بالا شعر کو نوک پلک سنوارنے کی غرض سے دیکھا جائے تو ایک بات تو یہ نظر آتی ہے کہ ٹھٹکتی کا قافیہ صوتی طور پر کچھ گراں ہے ۔ اس کے ممکنہ متبادلات کو دیکھا جائے تو جھجکتی اور بھٹکتی سامنے آتے ہیں ۔ جھجکتی کے استعمال سے شعر کے مفہوم میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آتی لیکن اس کی صوتی ثقالت ٹھٹکتی سے ذرا بھی کم نہیں ۔ سو اسے رد کردیا جائے تو بہتر ہے۔ بھٹکتی کم ثقیل ہے سو اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھجکتی اور بھٹکتی دونوں میں سے کون سا لفظ شاعر کے مافی الضمیر کو بہتر طور پر ادا کرتا ہے اور کون سا لفظ شعر ی منظرنامے پر زیادہ فٹ بیٹھ رہا ہے ۔ ان سوالات کو حل کرنے کے بعد لفظ کا انتخاب آسان ہوجاتا ہے ۔ ہر گام بھٹکتی ہے غزل کہنا چونکہ درست نہیں ہے اس لیے اس متبادل کو بھی رد کردیا جائے ۔
دوسری بات یہ کہ "اپنے شانوں پہ" کہا جائے یا "اپنے کاندھوں پہ" کہنا بہتر ہوگا ۔ اپنے شانوں پہ صوتی اعتبار سے بہتر ہے ۔ اس کی قرات نسبتاً زیادہ رواں ہے ۔ ایک باریک سا نکتہ یہ بھی ہے کہ محبت اور عذابوں کی نسبت سے ہندی کے بجائے فارسی لفظ کا انتخاب اچھا رہے گا۔ سو اپنے شانوں پہ بہتر رہے گا ۔

ایک اور بات جو اس شعر میں سامنے آتی ہے وہ ہے لفظ "عذابوں" کا استعمال۔ کیا یہی لفظ مناسب ترین ہے یا اس سے بہتر کوئی متبادل لایا جاسکتا ہے ؟!
اس سوال کے جواب کو پانے کے لیے شعری خیال کو کچھ گہرائی میں جا کر دیکھنا پڑے گا ۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ ہجراں نصیب ہے ، فرقت کے راستوں پر محبت کے بوجھ اور عذاب اٹھائے پھررہا ہے ، کارِ ضرورت میں بھی مصروف ہے لیکن یادِ یار میں اس طرح سخن سرا ہے کہ غزل ہر گام سہم سہم جاتی ہے ، ٹھٹک جاتی ہے ۔ شعری تخیل کی اس لفظی تصویر پر غور و فکر کیا جائے ، ہر ہر پہلو سے سوچا جائے تو یہ بات کھلتی ہے کہ ہجر میں وفا کے تقاضوں کو ساتھ لے کر چلنا اور نبھانا دراصل ایک امانت کو سنبھالنے کے برابر ہوتا ہے۔ اور ہجر کے مصائب و امتحان دراصل اسی امانت کو نبھانے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ سو اس شعر کو اب یوں کرکے دیکھا جائے:
اپنے شانوں پہ محبت کی امانت کو لیے
شہرِ فرقت میں ہر اک گام ٹھٹکتی ہے غزل

اب شعر کی اس نئی صورت کا پہلی شکل سے تقابل کیا جائے گا ۔ کون سی شکل شاعر کا مافی الضمیر بہتر طور پر ادا کر تی ہے ؟ کس میں معائب کم اور محاسن زیادہ ہیں ؟ کون سا شعر مجموعی طور پر زیادہ مؤثر اور برجستہ سنائی دیتا ہے ؟! وغیرہ وغیرہ ۔ اب اس موقع پر یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ شعر کی دونوں صورتیں لکھنےکے بعد کچھ دنوں کے لیے اسے پال میں لگادیا جائے ۔ دو چار ہفتے میں جب شعر ذہن سے محو ہوجائے تو پھر اسے فرصت میں نکال کر دیکھئے ۔ دونوں صورتوں میں فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے ۔ کم ازکم اس معاملے میں میرا طریقۂ کار عموماً یہی ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا تمام باتیں تخلیقی عمل کا حصہ ہیں اور شاعر کے ذہن میں غیر شعوری یا لاشعوری طور پر خود بخود طے ہوتی رہتی ہیں ۔ لیکن ان تجریدی باتوں کااس طرح غیر تجریدی انداز اور امثال کی مدد سے بیان کرنا تعلیم و تعلم کے اس سلسلے کا تقاضا ہے کہ جو اس دھاگے کا بنیادی مقصد ہے ۔ غیر ضروری طوالت کے لیے آپ سےمعذرت کا پیشگی طلبگار ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی عاطف بھائی ۔۔۔ آپ کا حسن ظن اپنی جگہ ۔۔۔ جس کے لیے میں ممنون و متشکر ہوں ۔۔۔ تاہم جس نہج پر اس لڑی میں اب تک گفتگو ہوئی ہے، وہ میرے لیول سے کافی اوپر ہے :)
پہلے پہل میرا واقعی کچھ لکھنے کا ارادہ تھا مگر اب سوچ رہا ہوں کہ پہلے اچھی طرح ظہیر بھائی اور دیگر کے جوابات کا مطالعہ کروں ۔

راحلؔ بھائی ، آپ کی اس بات پر تو پوری بزمِ سخن کو باجماعت احتجاج کرنا چاہیے بلکہ باجماعت دھمکی دینے کے بارے میں بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ :)

بھائی ، انکساری اپنی جگہ اور چراغ سے چراغ جلانے کا عمل اپنی جگہ ۔ میرے خیال میں اس لڑی کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس میں نسبتاً تجربے کار اور سینئر شعرا مل جل کر کسی شعری تخلیق پر تنقیدی گفتگو اور تبصروں سے جونیئرز کے لیے رہنمائی اور روشنی فراہم کریں۔ ہر مہینے ایک غزل میں سہولت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی سہولت اور فرصت کے مطابق اس گفتگو میں حصہ لے سکتا ہے ۔
اب اس وقت اس تنقیدی نشست کی صورتحال مجھے کچھ اس طرح نظر آ رہی ہے ہے کہ ناظمہ صاحبہ تو شاعرہ کو دعوتِ کلام دے کر اپنی کرسی پر نیم دراز مزے سے خواتین ڈائجسٹ پڑھ رہی ہیں۔ کبھی کبھی کوچۂ بھوتاں و جناں کی طرف سر گھما کر "حاضر ہوں ں ں " ایک کا نعرہ بلند کرتی ہیں اور پھر سے ساس بہو کی چٹ پٹی کہانی پڑھنے لگتی ہیں ۔ ادھر دوسرے کونے میں شاعرہ امین صاحبہ اپنی غزل پیش کرنے کے بعد مزے سے بیٹھی قیمہ پراٹھا نوش فرما رہی ہیں۔ ہر پراٹھے کے بعد چائے کے وقفہ میں نثر میں گفتگو فرماتی ہیں اور چند پھلجھڑیاں چھوڑ کر دوبارہ قیمے پراٹھے کی تقطیع میں مصروف ہو جاتی ہیں ۔ اور ادھر تیسرے کونے میں ایک حقہ اکیلا بیٹھا سلگ رہا ہے ۔ وہ تو بھلا ہو عاطف بھائی کا کہ بیچ میں آکر دو تین بار اسے گڑگڑادیا ورنہ یہ حقہ اتنی کشاکش کے بعد بھی منت کش ِکش نہ ہوپاتا ۔ اور میں ادھر چوتھے کونے میں بیٹھا بار بار سر کھجا رہا ہوں ۔
نہیں نہیں ۔ جوئیں تو پچھلے سال ہی ختم ہوگئی تھیں ۔ یہ تو شدتِ غور و فکر کی وجہ سے کان اور سر کھجائے جارہا ہوں ۔ :grin:

مزاح برطرف، راحیل بھائی اس تنقیدی نشست میں آپ کی شرکت نہایت ضروری ہے ۔ ایک اچھا ادبی تخلیقی ماحول پیدا کرنے کے لیے باہمی گفت و شنید ضروری ہے۔ میری رائے میں اس قسم کی کی گفتگو میں جواب سے زیادہ سوال کی اہمیت ہوتی ہے ۔ ذہنی گرہ کشائی کے لیے ضروری ہے کہ ہر طرف سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہے ۔ امید ہے کہ آپ کسرِ نفسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس عاجز کی درخواست پر شریکِ گفتگو ہوں گے۔
آپ اگر کہیں گے تو حقے کی چلم میں گڑ کا مزید اضافہ کردیا جائے گا۔ نیز نال کے منہ پر فلٹر لگانے کا بندوبست بھی کیا جاسکتا ہے۔:):):)
 
آخری تدوین:
Top