صابرہ امین

لائبریرین
غم و حزن کی شاعری بالکل بھی رد کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ غم کا احساس، چاہے وہ غم ہستی ہو یا غم دنیا، انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ان احساسات کا شعری و نثری سطح پر اظہار ہر بڑے شاعر و ادیب کے ہاں مل جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ شاعر و ادیب ہمہ وقت اسی ایک کیفیت کا اظہار کرتا رہے وگرنہ قنوطیت کا رنگ گہرا ہو جائے گا۔

چچا غالب کا ایک شعر یاد آ گیا۔
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
پہلے پہل جب شاعری سے واسطہ صرف پڑھنے اور امتحان پاس کرنے تک تھا تو مجھے مرزا غالب پر شدید حیرت اور کبھی کبھی غصہ بھی آتا تھا کہ یہ کیا وظیفہ خوار ہیں۔ برے حال ہیں مگر کام وام نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ ۔ میری ان سے توقعات بہت زیادہ تھیں کہ اتنا عقلمند شخص کیسے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہے! جب ہماری استاد (جو کہ خود بھی صاحب کتاب شاعرہ تھیں اور جن سے متاثر ہو کر ہم نے بھی اپنی پہلی دو غزلیں فٹافٹ لکھ ڈالیں!:D) یہ کہتی تھیں غالب جیسا شاعر ہونا کسی بھی شاعر کا خواب ہو سکتا ہے یا غالب کا ایک شعر پوری داستاں سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ تو اور بھی عجیب لگتا تھا کہ اتنے قابل اور سمجھدار انسان کچھ چھوٹی موٹی نوکری ہی کر لیتے۔ مگر اب سمجھ آتا ہے کہ درد وہی اچھے سے لکھ سکتا ہے جس نے درد سہا ہو، رسوائی اصل میں وہی جانتا ہے جو رسوا ہوا ہو۔ عشق اسے ہی معلوم ہے جس نے کیا ہو! مجھے اب اس بات پر یقین ہو چلا ہے کہ غالب شاید ولی ہی ہوتے اگر بادہ خوار نہ ہوتے! انہوں نے شاعری سے عشق کیا اور جم کر کیا۔ ہم جیسے اسمارٹ لوگ اپنے فالتو وقت میں شاعری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجتا ً ناغالب ہی رہتے ہیں۔ غالب کی جگہ خالی ہی رہی گی کہ اتنا کچھ ہر کوئی سہہ ہی نہیں سکتا۔
یہ شعر کچھ عرصے پہلے غالب کو سوچ کر کہا؎

جنوں نے جیت لی بازی کمالِ جرت سے
یہ فکرِ شعر و سخن ہوشمند کیا کرتے

شاعری ایک روگ کے سوا کیا ہے!
 

صابرہ امین

لائبریرین
معذرت ! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ زنانہ غزل ہے ۔

حامد کی ٹوپی محمود کے سر تو سنتے آئے تھےلیکن اب آپ کی برکت سے ایک نئی ضرب المثل ایجاد ہوگئی ۔ غلام علی کا سُر ، مہدی حسن کے سَر
لکھتے وقت چھٹی حس کی نہ سنی جو بار بار کہہ رہی تھی مہدی حسن نہیں ہیں ۔ اللہ نے اس غزل کو صحیح سے سننے کی توفیق اور موقع دیا ہی نہیں!
شکر الحمد للہ! :D
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
معذرت ! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ زنانہ غزل ہے ۔

حامد کی ٹوپی محمود کے سر تو سنتے آئے تھےلیکن اب آپ کی برکت سے ایک نئی ضرب المثل ایجاد ہوگئی ۔ غلام علی کا سُر ، مہدی حسن کے سَر
اخاہ ! نور وجدان ۔۔ کیسی ہیں آپ ۔ آپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا!
یہ ریٹنگ یقیناً غلطی سے دی ہوگی! آپ کی حس مزاح تو بہت عمدہ ہے ۔ :noxxx: :grin:
 

علی وقار

محفلین
برے حال ہیں مگر کام وام نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ ۔
تذکرہ آب حیات میں لکھا ہے کہ 1842 میں جب کہ دہلی کالج نئے اصولوں پر قائم کیا گیا، مسٹر ٹامس سیکرٹری گورنمنٹ ہند، جو آخر میں اضلاعِ شمال و مغرب میں لیفٹیننٹ گورنر بن گئے تھے، مدرسین کے امتحان کے لیے دلی میں آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپے ماہوار کا ایک عربی مدرس کالج میں مقرر ہے، اسی طرح ایک فارسی کا مدرس مقرر کیا جائے۔ لوگوں نے مرزا، مومن خان اور مولوی امام بخش کا ذکر کیا۔ سب سے پہلے مرزا صاحب کو بلایا گیا۔ مرزا پالکی میں سوار ہو کر سیکرٹری صاحب کے ڈیرے پر پہنچے، صاحب کو اطلاع ہوئی، انہوں نے فوراً بلایا۔ مگر یہ پالکی سے اتر کو اس انتظار میں کھڑے رہے کہ دستور کے موافق سیکرٹری صاحب انہیں لینے کے لیے آئیں گے۔ جب بہت دیر ہو گئی اور صاحب کو معلوم ہوا کہ اس وجہ سے نہیں آئے تو وہ خود باہر چلے آئے اور مرزا سے کہا کہ جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تو آپ کا اسی طرح استقبال کیا جائے گا، لیکن اس وقت آپ نوکری کے لیے آئے ہیں، اس موقع پر وہ برتاؤ نہیں ہو سکتا۔ مرزا صاحب نے کہا کہ گورنمنٹ کی ملازمت کا ارادہ اس لیے کیا ہے کہ اعزاز کچھ زیادہ ہو، اس لیے نہیں کہ موجودہ اعزاز میں بھی فرق آئے۔ صاحب نے کہا: ہم قاعدے سے مجبور ہیں۔ مرزا صاحب نے کہا کہ مجھ کو اس خدمت سے معاف رکھا جائے، اور یہ کہہ کر چلے آئے۔
///
یعنی کہ صابرہ صاحبہ، غالب کی اپنی الگ منطق تھی، ان کا ایک شعر ہے،
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراصل، وہ ملازمت کے لیے بنے ہی نہ تھے۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
اگرچہ شعر کا تخلیقی محرک بہت سارے شعرا کے لیے ایک سا ہوسکتا ہے لیکن ہر شاعر اپنے زاویۂ نظر اور اپنے مخصوص اسلوب کے باعث شعر کو ایک الگ رنگ عطا کرتا ہے
کیا یہاں ہم طرح مصرع کی مثال دے سکتے ہیں؟ ایک ہی طرح مصرع کئی شعراء کے اشعار میں استعمال ہوتا ہے تو ہر شعر مکمل یا جزوی طور پہ علیحدہ مضمون بیان کر رہا ہوتا ہے۔
مثلاً
پچپن پہ آ کے بیوی سے میں نے کہا کہ جان!
"جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو"
جاسمن
پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
یہ ہمی ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
تو کیا شاعر اپنی شاعری میں بس بہادری دکھائے؟ کیا وہ ملمع کاری کرے اگر وہ خود کو بزدل، کمزور، کم ہمت سمجھ رہا ہے۔ اگر وہ صبر نہیں کر سکتا، بعض اوقات دکھ برداشت کرنے کی سکت نہیں پاتا تو چیخنے کی بجائے ضبط کرے؟
یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ٹھیک ہے کہ ایک چیز بہتر ہے لیکن شاعری جب ہے ہی محسوسات کو بیان کرنے ، الفاظ دینے کا عمل تو پھر محسوسات تو ہمہ اقسام کے ہوتے ہیں۔
میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔
یعنی کسی غیر مرئی شے کوایک شخصیت یا کردار کا روپ دے دینا
یہ بہت مزے کی بات ہے۔ کیا اس کی اور مثالیں مل سکتی ہیں؟
صرف سپاٹ پن ختم ہوا بلکہ ایسا لگا کہ تانبے کے پرانے برتن پر قلعی کر دی گئی ہو۔ زبردست بنا دیا ہے اس شعر کو آپ نے
آپ نے مثال بہت اچھی دی ہے۔ :)
اس موقع پر یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ شعر کی دونوں صورتیں لکھنےکے بعد کچھ دنوں کے لیے اسے پال میں لگادیا جائے
ہاہاہا! یہی بات شاید عرفان علوی نے بھی کی ہے کہ کچھ دنوں کے لیے بھول جائیں اس شعر/غزل کو۔
بھائی ، انکساری اپنی جگہ اور چراغ سے چراغ جلانے کا عمل اپنی جگہ ۔ میرے خیال میں اس لڑی کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس میں نسبتاً تجربے کار اور سینئر شعرا مل جل کر کسی شعری تخلیق پر تنقیدی گفتگو اور تبصروں سے جونیئرز کے لیے رہنمائی اور روشنی فراہم کریں
سو فیصد متفق۔ اس لیے محمد احسن سمیع راحلؔ ! لالٹین لائیں اور روشنی فراہم کریں۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔

تو کیا شاعر اپنی شاعری میں بس بہادری دکھائے؟ کیا وہ ملمع کاری کرے اگر وہ خود کو بزدل، کمزور، کم ہمت سمجھ رہا ہے۔ اگر وہ صبر نہیں کر سکتا، بعض اوقات دکھ برداشت کرنے کی سکت نہیں پاتا تو چیخنے کی بجائے ضبط کرے؟
یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ٹھیک ہے کہ ایک چیز بہتر ہے لیکن شاعری جب ہے ہی محسوسات کو بیان کرنے ، الفاظ دینے کا عمل تو پھر محسوسات تو ہمہ اقسام کے ہوتے ہیں۔
خواہرم ، بات اس لیے سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ میرے جملے کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھ رہیں ۔ :) جب دھاگے میں کئی لوگ بیک وقت مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے ہوں تو مکالمے میں عدم تسلسل کی وجہ سے بعض دفعہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ مکمل طور پر سمجھنے کے لیے پورے مکالمے کو دیکھنا اور پچھلی گفتگو کا تسلسل دیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ تو سیاق و سباق سے علیحدہ ہونے کے بعد کسی بھی جملے کا مطلب کچھ سے کچھ ہو سکتا ہے ۔ اب آپ اس پورے مکالمے کو دیکھیے:

اس غزل کے مطلع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے مصرعِ اول پر یہ تجویز دی تھی: " دلِ مجبور میں چپ چاپ سسکتی ہے غزل"
جس پر شاعرہ نے یہ خوبصورت بات کی کہ وہ دلِ مجبور کے بجائے دلِ ناکام کہنا پسند کریں گی کیونکہ مجبوری انہیں کمزوری معلوم ہوتی ہے اور کمزوری کی نسبت ناکامی انہیں زیادہ قابلِ قبول ہے۔ یہ دیکھیے ان کا اقتباس:
آپ کا اس متبادل کے بارے میں کیا خیال ہے۔
دلِ ناکام میں دن رات سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
مجبور سے زیادہ ناکام شاید بہتر ہو۔ ذاتی طور پر میں کوشش کی قائل ہوں۔ مجبوری مجھے کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ کوشش کر کے ناکام ہونا میرے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے۔
دن رات اس لیے کہ ناکامی کی شدت اور اس کے اثرات بہت زیادہ معلوم ہوں۔
مجھے ان کی توجیہہ پسند آئی اور اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے جواباً کہا:
بہت خوب! دلِ ناکام کی ترکیب اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ بہت خوب ہے۔ چونکہ یہ الفاظ آپ کی سوچ کے عکاس ہیں اس لیے کوئی اور صورت اس سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ البتہ دن رات کا استعمال میرے نزدیک حقیقت کا عکاس نہیں ۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔

چونکہ شاعرہ اپنے شعر میں کمزوری کے اظہار کے بجائے اپنی حوصلہ مندی اور جدوجہد دکھانا چاہتی تھیں اس لیے میں نے کہا کہ دن رات آنسو بہانے سے تو کمزوری ظاہر ہوتی ہے اس لیے دن رات کے بجائے چپ چاپ زیادہ بہتر رہے گا۔
لیکن ہوا یہ کہ مکالمے میں عدم تسلسل کے باعث صابرہ امین شاعرہ خود اپنی کہی ہوئی بات بھول گئیں۔ شہر کو سیلاب میں ڈبونے کی دھمکیوں پر اتر آئیں۔
خیر ، اب اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں ہے ۔ چھ پراٹھے کھانے کے بعد کہاں کچھ یاد رہتا ہے کسی کو ۔
(اسمائیلی تین عدد)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔

یہ بہت مزے کی بات ہے۔ کیا اس کی اور مثالیں مل سکتی ہیں؟
تجسیم اور تمثیل کی مثالیں تو اردو شعر و نثر میں جابجا بکھری ہوئی ہیں ۔ جیسے ہی وقت ملا تو میں آپ کے اور دیگر قارئین کے استفادے کے لیے کچھ اچھی مثالیں کاپی پیسٹ کردوں گا ۔ ان شاء اللّٰہ۔
میں نے حال ہی میں اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایک مختصر سا شگفتہ جواب مضمون لکھا تھا ۔ فی الحال مثال کے طور پر اس مضمون کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
:) :):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا یہاں ہم طرح مصرع کی مثال دے سکتے ہیں؟ ایک ہی طرح مصرع کئی شعراء کے اشعار میں استعمال ہوتا ہے تو ہر شعر مکمل یا جزوی طور پہ علیحدہ مضمون بیان کر رہا ہوتا ہے۔
جی ہاں ۔ یہ بھی نکتۂ زیرِ بحث کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک ہی مصرع طرح سے مختلف شعرا اپنی فکر اور زاویہٌ نظر کے مطابق مختلف النوع مضامین پیدا کرتے ہیں ۔
ایک ہی موضوع کو اپنے اپنے زاویۂ نظرسے دیکھنے کے بارے میں شکیل بدایونی اور ساھر لدھیانوی کے تاج محل پر اشعار کی مشہور مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

اس موقع پر ایک دلچسپ متعلقہ مثال اور یاد آتی ہے جوایک زمانے سے سنتا آرہا ہوں ۔ پہلی دفعہ یہ اشعار مجھے میرے بچپن میں میرے ایک ماموں نے سنائے تھے ۔ کہتے ہیں کہ کسی شاعر نے یہ شعر کہا:
واعظ شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتادے جہاں پر خدا نہیں
اس پر ایک دوسرے شاعر نے در جوابِ آں غزل یہ کہا:
اٹھ جا لعیں یہاں سے ، یہ پینے کی جا نہیں
ملحد کے دل میں پی کہ جہاں پر خدا نہیں
:)

پچپن پہ آ کے بیوی سے میں نے کہا کہ جان!
"جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو"
جاسمن
وفا شعار بیوی نے یقیناً شوہرِ نامدار کی یہ خواہش پوری کردی ہوگی اور بہت جلد ایمبولینس والے گھر پر آگئے ہوں گے ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ساتویں شعر میں ’جذبات دھڑکنا‘ کی ترکیب میری نگاہ سے نہیں گزری . دِل بذات خود دھڑکتا ہے . اس میں کسی اور شئے کا دھڑکنا نا قابل فہم ہے ۔

عرفان بھائی ، اس نکتے پر آپ سے بصد ادب اختلاف کی جسارت کروں گا ۔ میری رائے میں تو "جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں" اچھا پیرایۂ اظہار ہے۔ شاعری کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ اس میں لفظوں کے ( Concrete) یعنی جامد اور لغوی پہلو کے بجائے (abstract) تجریدی پہلو کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ شاعری اور نثر دونوں میں اس طرح کا طرز بیان تو بہت عام ہے کہ کسی لفظ کی معنوی رعایات اور خصوصیات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی جگہ کسی دوسرے لفظ کو استعمال کرلیا جاتا ہے۔ مثلاً "ابھی تو میرا دل جوان ہے" کہنے کے بجائے "ابھی تو میرے دل میں جوانی دھڑکتی ہے" کہا جائے تو بالکل بھی نامناسب نہیں ہوگا کہ دھڑکنا زندگی کی علامت اور اس کا قائم مقام ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ " فیض کی یہ نظم سانس لیتی اور دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔" غلط نہیں بلکہ خوبصورت اور بلیغ جملہ کہلایا جائے گا۔ شاعری میں تو ستارے اور پھول باتیں کرسکتے ہیں ، شام گنگنا سکتی ہے ، رات روسکتی ہے ، انگلیاں چیخ سکتی ہیں ، آنکھیں مسکراسکتی ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ :) یعنی یہ کہنا چاہیئے کہ قلمکار کو معقولیت اور روایت کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کسی حد تک لفظوں سے کھیلنے کی اجازت تو ہے ۔ میری رائے میں اگر شعر میں لفظوں اور فقروں کو بالکل جامد اور منطقی انداز سے دیکھا جائے تو پھر اردو کے اچھے خاصے اشعار قلمزد کرنے پڑیں گے ۔ جیسے ایک مشہور شعر جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اب یہاں یہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ پتھر کے بت خود تو بھگوان نہیں بنتے بلکہ انسان انہیں بھگوان بناتے ہیں۔ لیکن شعر کی خوبصورتی ہی "بنے بیٹھے ہیں" کے الفاظ میں ہے۔ اور اسی پیرایۂ اظہار کی وجہ سے یہ شعر کم ظرف و احسان فراموش آدمی پر منطبق کیا جاتا ہے ۔

مصرع ِ زیرِ بحث کے دفاع میں تو بہت سارے شعری نظائر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے اشعار آپ نے بھی دیکھے ہوں گے :
جس کے سینے میں دھڑکتی ہے صدائے فقرا
جس کے اعصاب کو ڈستا ہے رخِ زردِگدا
(جوش ملیح آبادی)
دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی
پکارتا ہے مجھے روز و شب کوئی نہ کوئی
(احمد مشتاق)
شعر کا حسن ہو نغموں کی جوانی ہو تم
اک دھڑکتی ہوئی شاداب کہانی ہو تم
(ساحر لدھیانوی)
 

صابرہ امین

لائبریرین
لیکن ہوا یہ کہ مکالمے میں عدم تسلسل کے باعث صابرہ امین شاعرہ خود اپنی کہی ہوئی بات بھول گئیں۔ شہر کو سیلاب میں ڈبونے کی دھمکیوں پر اتر آئیں۔
خیر ، اب اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں ہے ۔ چھ پراٹھے کھانے کے بعد کہاں کچھ یاد رہتا ہے کسی کو ۔
(اسمائیلی تین عدد)
ہاہاہا ۔ ۔ اس پر سنجیدہ بحث بعد میں ہو گی، ان شا اللہ ۔ ۔ مگر پراٹھے چھ ہرگز نہیں تھے! :LOL: :LOL: :LOL:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مگر پراٹھے چھ ہرگز نہیں تھے! :LOL: :LOL: :LOL:

ہاہاہاہا ۔ یہ ہوا نہلے پہ دہلا ۔۔۔ ۔ بلکہ چھکیّ پہ ستّہ ! :D
پراٹھے کھاتے وقت تعداد کے بارے میں میں خود اکثر نسیان کا شکار ہوجاتا ہوں۔ اہلِ خانہ یاد دلاتے ہیں تو پھر بلاوجہ کی ایک بیکار بحث گنتی کے بارے میں شروع ہوجاتی ہے۔ نو ، بارہ ، تیرہ یا پندرہ ۔ بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا گننے کا طریقہ ہوتا ہے۔
اس اہم تغذیاتی موضوع پر آپ خواہرانِ محترم کی مزیدگفتگو کا سنجیدگی سے انتظار رہے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
جب بھی ایسی بحث ہو، گنتی بھول جائے تو بہت آسان ، کارآمد، مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے کہ پراٹھے دوبارہ کھانے شروع کریں اور کسی کو گنتی پہ بٹھا دیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جب بھی ایسی بحث ہو، گنتی بھول جائے تو بہت آسان ، کارآمد، مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے کہ پراٹھے دوبارہ کھانے شروع کریں اور کسی کو گنتی پہ بٹھا دیں۔
آپ کے منہ میں حلوہ پوری! کیسا اچھا طریقہ بتایا ہے آپ نے ۔ آئندہ ویک اینڈ پر گنتی اسی طرح ہوگی۔ :D
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب بھی ایسی بحث ہو، گنتی بھول جائے تو بہت آسان ، کارآمد، مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے کہ پراٹھے دوبارہ کھانے شروع کریں اور کسی کو گنتی پہ بٹھا دیں۔
اس سے بہتر طریقہ میرے پاس ہے جو حال ہی میں دیافت ہوا ہے، اور وہ یہ کہ پراٹھے دو ایک دفعہ خود پکا کر کھائیں ۔
یہ اعداد و مقدار کے نسیان کا طرفہ خود طاق نسیان کی زینت بن جائے گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس سے بہتر طریقہ میرے پاس ہے جو حال ہی میں دیافت ہوا ہے، اور وہ یہ کہ پراٹھے دو ایک دفعہ خود پکا کر کھائیں ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو خود پکائیں وہ پراٹھا نہیں ہوتا۔ 😐
یہ بات البتہ آپ کی درست ہے کہ اس "شاہکار" کو کھانے کے بعد آپ کبھی بھول نہیں سکتے۔
 
Top