ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود
بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل

اس شعر کے توسط سے ایک نئی ضمنی بحث کا آغاز کرنا چاہتا ہوں اور اس کی ابتدا کچھ سوالات سے کرتا ہوں۔
۔ سچا شعر کیا ہوتا ہے ؟
۔ سچا شعر کہنے کے لیےکسی احساس اور کیفیت کا ذاتی تجربہ ضروری ہونا ضروری ہے یا مروجہ شعری روایات کی تقلید سے کام چلایا جاسکتا ہے؟
- اگرچہ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر لیکن کیا یہ بات ایک آفاقی کلیے کا درجہ رکھتی ہے؟

اس بارے میں اپنی ناقص رائے جلد ہی پیش کرتا ہوں اور محولہ بالا شعر کا تنقیدی تجزیہ بھی ۔ فی الحال شرکا کی سوچ کو مہمیز دینے کے لیے کچھ سوالات پیش کیے ہیں ۔

صابرہ امین
 

صابرہ امین

لائبریرین

ہاہاہاہا ۔ یہ ہوا نہلے پہ دہلا ۔۔۔ ۔ بلکہ چھکیّ پہ ستّہ ! :D
پراٹھے کھاتے وقت تعداد کے بارے میں میں خود اکثر نسیان کا شکار ہوجاتا ہوں۔ اہلِ خانہ یاد دلاتے ہیں تو پھر بلاوجہ کی ایک بیکار بحث گنتی کے بارے میں شروع ہوجاتی ہے۔ نو ، بارہ ، تیرہ یا پندرہ ۔ بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا گننے کا طریقہ ہوتا ہے۔
اس اہم تغذیاتی موضوع پر آپ خواہرانِ محترم کی مزیدگفتگو کا سنجیدگی سے انتظار رہے گا۔
یعنی یک نہ شد دو شد!!!
کھانے کو تو سات بھی کھا کر دل نہ بھرے۔ مگر دماغ کی بھی سننا پڑتی ہے۔ ؎

اب اس قدر بھی نہ کھاؤ کہ دم نکل جائے ۔ ۔ :D:D:D
 

صابرہ امین

لائبریرین
اس محاورے کا پس منظر کیا ہوسکتا ہے وہ صاف ظاہر ہے۔ اچھی طرح تیار ہونے کے بعد (بلکہ تیار شیار ہونے کے بعد :) ) خواتین جو سلوک ڈریسر کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے رخِ روشن کے ساتھ کرتی ہیں
جس طرح نوک پلک درست کرنے کے چکر میں دعوت میں دو گھنٹے تاخیر سے پہنچنا نارمل بات ہے اسی طرح غزل کا سامعین کے سامنے تاخیر سے جلوہ افروز ہونا بھی متوقع سمجھا چاہیئے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ نوک پلک سنوارنے میں ذرا تاخیر تو ہوجاتی ہے لیکن وڈیو اچھی بنتی ہے ۔ :D
تیار ہوتے وقت اتنا تو خواتین بھی نہیں سوچتیں جتنا آپ نے سوچ لیا۔ کمال ہے!! :grin:
 

صابرہ امین

لائبریرین
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو خود پکائیں وہ پراٹھا نہیں ہوتا۔ 😐
یہ بات البتہ آپ کی درست ہے کہ اس "شاہکار" کو کھانے کے بعد آپ کبھی بھول نہیں سکتے۔
بالکل صحیح۔ اپنے ہاتھ کے پراٹھے میں مجھے وہ مزا کبھی آیا ہی نہیں جو باجی یا امی کے پراٹھوں میں آتا تھا۔ خاص کر امی کے پراٹھے ۔ ۔ اف!!! (y) (y)
 

صابرہ امین

لائبریرین
اس شعر کے توسط سے ایک نئی ضمنی بحث کا آغاز کرنا چاہتا ہوں اور اس کی ابتدا کچھ سوالات سے کرتا ہوں۔
۔ سچا شعر کیا ہوتا ہے ؟
۔ سچا شعر کہنے کے لیےکسی احساس اور کیفیت کا ذاتی تجربہ ضروری ہونا ضروری ہے یا مروجہ شعری روایات کی تقلید سے کام چلایا جاسکتا ہے؟
- اگرچہ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر لیکن کیا یہ بات ایک آفاقی کلیے کا درجہ رکھتی ہے؟

اس بارے میں اپنی ناقص رائے جلد ہی پیش کرتا ہوں اور محولہ بالا شعر کا تنقیدی تجزیہ بھی ۔ فی الحال شرکا کی سوچ کو مہمیز دینے کے لیے کچھ سوالات پیش کیے ہیں ۔

صابرہ امین
اچانک سے یہ اشعار ذہن میں آگئے!

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

سچا شعر شائد دل کی آواز ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات و خیالات کو بے لاگ انداز میں بغیر کسی مصنوعیت کے پیش کرتا ہو۔۔۔
جی بالکل جب معلوم ہی نہ ہو کہ کوئی بھی احساس ہمارے دل میں کیا کیفیت پیدا کرتا ہے اس کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ۔

ضروری نہیں کہ تقلید کی جائے۔ اگر آپ کا اشارہ میرے شعر کی جانب ہے، جو کہ ہے! تو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ غزل میرے بارے میں نہیں بلکہ محترمہ غزل کے بارے میں ہے۔ یعنی جب میں نے شاعری کی تو اس وقت تو نظم یا غزل کا مطلب معلوم نہ تھا ۔ بس شعر بنانا معلوم نہیں کیسے آ گیا اور اکثر اشعار ٹھیک ہی تھے۔ اصلاحِ سخن سے غزل کے بارے میں معلوم ہوا اس کی بنت کا معلوم ہوا، تو ڈھیروں غزلیں پڑھ ڈالیں۔ مجھے ایسا لگا کہ عموما غزلیں ان جذبات و احساسات کے بارے میں ہوتی ہیں۔ پھر قافیہ کی مجبوری ایک وجہ ہے کہ بہکنا ہو اور مے کا ذکر نہ ہو۔ پرانی شاعری تو آنکھوں سے پلانے تک کی بات کرتی ہے یعنی مے کا ذکر کسی بھی شکل میں ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی مے نوشی غزل لکھنے کی خاطر تو نہیں کرے گا کہ شعر سچا کہلائے یا عشق فرمائے گا کہ اس کی بات وزن دار ہو! ویسے عشق زبردستی کیا جا بھی نہیں سکتا۔ تو ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر شعر جو شاعر لکھے وہ اس کا ذاتی تجربہ ہو۔
دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اگر انداز بیان کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں تو رائی سے بھی پہاڑی سلسلہ شروع کر دیتے ہیں :grin: بلکہ ان کی کہانیاں سچے واقعات کی نسبت زیادہ دلچسپ اور کامیاب ہوتی ہیں۔ اپنے خدا اپنے ہاتھوں بنانے والوں نے ان دیومالائی خداؤں کے بارے میں ایسی ایسی دلچسپ کہانیاں بیان کی ہیں کہ الامان الحفیظ! تو عشق کا مزہ چھکے بغیر بھی قوت تخیل کے زور پر شاندار غزل لکھی جا سکتی ہے۔ اتنی شاندار کہ شاید اصل عشق کہیں پیچھے ہی رہ جائے ۔ ۔

کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا
 
عرفان بھائی ، اس نکتے پر آپ سے بصد ادب اختلاف کی جسارت کروں گا ۔ میری رائے میں تو "جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں" اچھا پیرایۂ اظہار ہے۔ شاعری کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ اس میں لفظوں کے ( Concrete) یعنی جامد اور لغوی پہلو کے بجائے (abstract) تجریدی پہلو کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ شاعری اور نثر دونوں میں اس طرح کا طرز بیان تو بہت عام ہے کہ کسی لفظ کی معنوی رعایات اور خصوصیات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی جگہ کسی دوسرے لفظ کو استعمال کرلیا جاتا ہے۔ مثلاً "ابھی تو میرا دل جوان ہے" کہنے کے بجائے "ابھی تو میرے دل میں جوانی دھڑکتی ہے" کہا جائے تو بالکل بھی نامناسب نہیں ہوگا کہ دھڑکنا زندگی کی علامت اور اس کا قائم مقام ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ " فیض کی یہ نظم سانس لیتی اور دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔" غلط نہیں بلکہ خوبصورت اور بلیغ جملہ کہلایا جائے گا۔ شاعری میں تو ستارے اور پھول باتیں کرسکتے ہیں ، شام گنگنا سکتی ہے ، رات روسکتی ہے ، انگلیاں چیخ سکتی ہیں ، آنکھیں مسکراسکتی ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ :) یعنی یہ کہنا چاہیئے کہ قلمکار کو معقولیت اور روایت کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کسی حد تک لفظوں سے کھیلنے کی اجازت تو ہے ۔ میری رائے میں اگر شعر میں لفظوں اور فقروں کو بالکل جامد اور منطقی انداز سے دیکھا جائے تو پھر اردو کے اچھے خاصے اشعار قلمزد کرنے پڑیں گے ۔ جیسے ایک مشہور شعر جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اب یہاں یہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ پتھر کے بت خود تو بھگوان نہیں بنتے بلکہ انسان انہیں بھگوان بناتے ہیں۔ لیکن شعر کی خوبصورتی ہی "بنے بیٹھے ہیں" کے الفاظ میں ہے۔ اور اسی پیرایۂ اظہار کی وجہ سے یہ شعر کم ظرف و احسان فراموش آدمی پر منطبق کیا جاتا ہے ۔

مصرع ِ زیرِ بحث کے دفاع میں تو بہت سارے شعری نظائر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے اشعار آپ نے بھی دیکھے ہوں گے :
جس کے سینے میں دھڑکتی ہے صدائے فقرا
جس کے اعصاب کو ڈستا ہے رخِ زردِگدا
(جوش ملیح آبادی)
دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی
پکارتا ہے مجھے روز و شب کوئی نہ کوئی
(احمد مشتاق)
شعر کا حسن ہو نغموں کی جوانی ہو تم
اک دھڑکتی ہوئی شاداب کہانی ہو تم
(ساحر لدھیانوی)
ظہیر بھائی ، آپ کا اِخْتِلاف رائے سَر آنكھوں پر . :) عام طور پر آپ كے دلائل سننے كے بعد اِتِّفاق كے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ، لیکن بصد معذرت عرض ہے کہ اِس مرتبہ آپ كے دلائل مجھے متاثر نہیں کر سکے . وجہ حسب ذیل ہے .
تجریدی ( abstract) خیال باندھنے کا کوئی نپا تلا اصول نہیں ہے . ہَم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر چہرے اور آنكھوں کا بولنا روا ہے تو میز اور کرسی کا بولنا بھی چلے گا . ہر تجریدی خیال اپنے آپ میں نادر ہوتا ہے ، اور ہر تجریدی خیال کو اول اول باندھنے پر سوال اٹھنا فطری ہے . میں یہاں یہ تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ گو مجھے سب تجریدی خیال برے نہیں لگتے ، تاہم میرے یہاں ایسے خیال ہضم کرنے کی گنجائش قدرے کم ہے . مثلاً گلزار صاحب خوشبو کو محبوب کی آنکھ سے پیدا کرتے ہیں اور اپنی آنکھ سے اس کا نظارہ کرتے ہیں ( ہَم نے دیکھی ہے ان آنكھوں کی مہکتی خوشبو . ) بعض لوگوں کو یہ مصرعہ بہت پسند ہے ، لیکن مجھے نہیں بھاتا . جدید شاعری میں تو ایسے ایسے خیال باندھے جا رہے ہیں کہ وہ سیدھے سَر كے اوپر سے گزر جاتے ہیں ، دِل کو تو خیر کیا چھوئینگے . تجریدی خیال میں جہاں نئےپن كے مواقع ہیں ، وہیں گمراہی كے امکانات بھی ہیں . میری ناچیز رائے میں ایسے خیال باندھنے میں احتیاط کی ضرورت ہے .
اب ایک نظر آپ کی عنایت کردہ مثالوں پر . آپ کا مراسلہ ملنے كے بعد میں نے ریختہ پر لفظ ’دھڑک‘ کی تلاش کی . نتیجے میں درجنوں اشعار برآمد ہوئے . ان کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ 90 % میں دھڑکنے کا عمل دِل کر رہا ہے . کچھ اشعار میں دِل کی بجائے سینہ یا کلیجہ دھڑکنے کا ذکر ہے ، جو دِل دھڑکنے جیسا ہی ہے . اور باقی اشعار میں دھڑکنے کا عمل ’دِل کی طرح‘ یا ’دِل بن کر‘ ہو رہا ہے . آپ کی پہلی اور تیسری مثال اسی قبیل کی ہیں . مجھے ایک بھی مثال ایسی نہیں ملی جس میں دِل میں کسی اور شئے كے دھڑکنے کا ذکر ہو . آپ کی دوسری مثال اِس زمرے کی واحد مثال ہے . لہذا اگر آپ مثالوں كے ذریعے صابرہ بہن کی ترکیب جائز ٹھہرانا چاہ رہے ہیں ، تو افسوس کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی . صابرہ بہن کی ترکیب کسی روایت کی پابند نہیں بلکہ ایک تجربہ ہے . اور تجربہ مقبول بھی ہو سکتا ہے اور ناکام بھی .
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ میری ناقص رائے کوئی حرف آخر نہیں . شعر اور خیال صابرہ بہن كے ہیں . اگر وہ سمجھتی ہیں کہ ان كے جذبات دِل میں دھڑک سکتے ہیں تو میں کون ہوتا ہوں اُنہیں روکنے والا ! :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ، آپ کا اِخْتِلاف رائے سَر آنكھوں پر . :) عام طور پر آپ كے دلائل سننے كے بعد اِتِّفاق كے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ، لیکن بصد معذرت عرض ہے کہ اِس مرتبہ آپ كے دلائل مجھے متاثر نہیں کر سکے . وجہ حسب ذیل ہے .
عرفان بھائی ، اس تنقیدی نشست کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی بھی زیرِ بحث نکتے پر شرکا اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق اظہارِ خیال کریں ۔ اختلافِ رائے ہر شخص کا حق ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔ کسی نکتے پر مختلف آرا سامنے آنے سے نہ صرف شاعر بلکہ دیگر قارئین کی سوچ اور فکر کو بھی وسعت ملتی ہے۔ خاکسار کا ایک شعر ہے:
اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت
جس جگہ روشنی ہوگی وہاں سائے ہونگے

تجریدی ( abstract) خیال باندھنے کا کوئی نپا تلا اصول نہیں ہے . ہَم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر چہرے اور آنكھوں کا بولنا روا ہے تو میز اور کرسی کا بولنا بھی چلے گا . ہر تجریدی خیال اپنے آپ میں نادر ہوتا ہے ، اور ہر تجریدی خیال کو اول اول باندھنے پر سوال اٹھنا فطری ہے .
میرا بھی یہی خیال ہے ۔ اور اسی لیے میں نے لفظوں کے تجریدی استعمال پر معقولیت اور روایت کی قید لگائی تھی ۔ یہ دیکھیے گا۔
یعنی یہ کہنا چاہیئے کہ قلمکار کو معقولیت اور روایت کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کسی حد تک لفظوں سے کھیلنے کی اجازت تو ہے ۔

جہاں تک کسی تجریدی خیال کو اول اول استعمال کرنے کا تعلق ہے تو سوال اسی صورت میں اٹھنا چاہیے جب وہ استعمال معقو ل نہ ہو یا کسی مستند روایت کے برخلاف جارہا ہو۔ مثلاً اگر کوئی شاعر محبوب کے لب کو پہلی دفعہ تتلی سے تشبیہ دے تو میری رائے میں یہ تشبیہ معقول بھی ہے اور ہونٹ کو گلاب کی پنکھڑی کہنے کی روایت کے قریب بھی ہے۔ اس استعمال پر سوال اٹھانا مشکل ہے ۔ لیکن اگر کوئی لب کوجگنو سے تشبیہ دے تو پھر توسوال اٹھانا بنتا ہے۔
 
عرفان بھائی ، اس تنقیدی نشست کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی بھی زیرِ بحث نکتے پر شرکا اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق اظہارِ خیال کریں ۔ اختلافِ رائے ہر شخص کا حق ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔ کسی نکتے پر مختلف آرا سامنے آنے سے نہ صرف شاعر بلکہ دیگر قارئین کی سوچ اور فکر کو بھی وسعت ملتی ہے۔ خاکسار کا ایک شعر ہے:
اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت
جس جگہ روشنی ہوگی وہاں سائے ہونگے


میرا بھی یہی خیال ہے ۔ اور اسی لیے میں نے لفظوں کے تجریدی استعمال پر معقولیت اور روایت کی قید لگائی تھی ۔ یہ دیکھیے گا۔


جہاں تک کسی تجریدی خیال کو اول اول استعمال کرنے کا تعلق ہے تو سوال اسی صورت میں اٹھنا چاہیے جب وہ استعمال معقو ل نہ ہو یا کسی مستند روایت کے برخلاف جارہا ہو۔ مثلاً اگر کوئی شاعر محبوب کے لب کو پہلی دفعہ تتلی سے تشبیہ دے تو میری رائے میں یہ تشبیہ معقول بھی ہے اور ہونٹ کو گلاب کی پنکھڑی کہنے کی روایت کے قریب بھی ہے۔ اس استعمال پر سوال اٹھانا مشکل ہے ۔ لیکن اگر کوئی لب کوجگنو سے تشبیہ دے تو پھر توسوال اٹھانا بنتا ہے۔
جی ظہیر بھائی ، شاعر کی آزادی پر آپ نے جو قید لگائی ہے ، وہ میں نے دیکھی تھی ، لیکن بات بنی نہیں . مجھے لگتا ہے کہ یہاں نظریے کا فرق کارفرما ہے . آپ نے جو حد مقرر کی ہے وہ میری حد سے وسیع تر ہے . میرے ذہن کو تَجْرِید كے نام پر ’دِل کی طرح‘ یا ’دِل کی جگہ‘ دیگر چیزوں کا دھڑکنا قبول ہے . لیکن ’دِل كے اندر‘ کسی شئے کا دھڑکنا میرے ذہن كے لیے ایک بالاتر درجے کی تَجْرِید ہے جس كے لیے وہ ابھی تیار نہیں . اور یہ معاملہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں ، اوروں كے ساتھ بھی ہے . شاید اسی لیے اَحْمَد مشتاق صاحب كے علاوہ کسی نے اِس قسم کا خیال نہیں باندھا . مثالوں كے تجزیے سے میں یہی ثابت کرنا چاہ رہا تھا .
خیر ، جیسا میں نے پہلے عرض کیا ، بطور شاعرہ صابرہ بہن کو اختیار ہے کہ وہ فکر كے آسمان میں جہاں تک مناسب سمجھیں ، پرواز کریں . کم اَز کم یہاں تو میں آپ سے متفق ہوں . :)
 

جاسمن

لائبریرین
بڑی دلچسپ گفتگو ہو رہی ہے۔ میں پہلی بار ایسی بحث کا حصہ ہوں۔
بڑا ادبی ادبی احساس دل میں دھڑک رہا ہے۔ خود اپنا آپ شاعرہ شاعرہ محسوس ہو رہا ہے۔ بیک وقت خود کو تنقید نگاریہ اور شاعرہ سمجھنے پہ مجبور ہوں، امید ہے معاف کیا جائے گا۔
:D:D
 

جاسمن

لائبریرین
نیز دیگر شعراء کو دعوت دی جاتی ہے کہ اپنے کلام تنقیدی بحث کے لیے ذاتی مکالمے میں بھیج دیں تاکہ مارچ کے لیے انتخاب کیا جا سکے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
جی ہاں ۔ یہ بھی نکتۂ زیرِ بحث کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک ہی مصرع طرح سے مختلف شعرا اپنی فکر اور زاویہٌ نظر کے مطابق مختلف النوع مضامین پیدا کرتے ہیں ۔
ایک ہی موضوع کو اپنے اپنے زاویۂ نظرسے دیکھنے کے بارے میں شکیل بدایونی اور ساھر لدھیانوی کے تاج محل پر اشعار کی مشہور مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

اس موقع پر ایک دلچسپ متعلقہ مثال اور یاد آتی ہے جوایک زمانے سے سنتا آرہا ہوں ۔ پہلی دفعہ یہ اشعار مجھے میرے بچپن میں میرے ایک ماموں نے سنائے تھے ۔ کہتے ہیں کہ کسی شاعر نے یہ شعر کہا:
واعظ شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتادے جہاں پر خدا نہیں
اس پر ایک دوسرے شاعر نے در جوابِ آں غزل یہ کہا:
اٹھ جا لعیں یہاں سے ، یہ پینے کی جا نہیں
ملحد کے دل میں پی کہ جہاں پر خدا نہیں
:)


وفا شعار بیوی نے یقیناً شوہرِ نامدار کی یہ خواہش پوری کردی ہوگی اور بہت جلد ایمبولینس والے گھر پر آگئے ہوں گے ۔

ظہیر بھائی اسی سے متعلق نیرنگ خیال بھائی کی ایک پوسٹ نظر سے گذری اس کا اقتباس دیکھییے
زاہد شراب پینے دے مجھے مسجد میں بیٹھ کر
ہے کوئی ایسی جگہ بتا جہاں خدا نہیں

(غالب)

مسجد خدا کا گھر ہے کوئی پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں چلے جا وہاں خدا نہیں

(اقبال)

کافر کے دل سے ہی دیکھ کر آیا ہوں فراز
اس کے دل میں بھی خدا ہے لیکن اسے پتہ نہیں
(فراز)

معمولی سی ردّوبدل کے ساتھ عرصہ دراز سے یہ اشعار کتابی چہرہ و غیر کتابی چہرہ والی سائٹس پر گھوم رہیں ہیں۔ براہِ مہربانی انکے متعلق کوئی مستند حوالہ فراہم کیجئے۔ تاکہ اندھا دھند پھیلانے والوں کا ھاتھ روکا جا سکے۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس بحث کو کسی پچھلی لڑی میں لے جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا یا پھر اس سے متعلق اگر پہلے سے کوئی دھاگہ موجود نہیں تو نیا کھول لیا جائے۔
کیا خیال ہے اکمل زیدی؟
 

اکمل زیدی

محفلین
نیز دیگر شعراء کو دعوت دی جاتی ہے کہ اپنے کلام تنقیدی بحث کے لیے ذاتی مکالمے میں بھیج دیں تاکہ مارچ کے لیے انتخاب کیا جا سکے۔
محمد عبدالرؤوف صاحب کھلی اپورچونیٹی ہے پیش کر دیں اپنا کوئی شاہکار ۔۔ آپریشن کے لیے ۔۔۔سرجن ظہیر صاحب کی معاونت کے لیے عرفان علوی اور وقار صاحب موجود ہیں بقیہ نشتر زنی کے فرائض محترمہ صابرہ صاحبہ انجام دینگی اضافی اسٹاف کے لیے ایک ایکسپرٹ کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محمد عبدالرؤوف صاحب کھلی اپورچونیٹی ہے پیش کر دیں اپنا کوئی شاہکار ۔۔ آپریشن کے لیے ۔۔۔سرجن ظہیر صاحب کی معاونت کے لیے عرفان علوی اور وقار صاحب موجود ہیں بقیہ نشتر زنی کے فرائض محترمہ صابرہ صاحبہ انجام دینگی اضافی اسٹاف کے لیے محترمہ یاسمین صاحبہ بھی آسکتی ہیں ۔ ۔ گُلِ یاسمیں کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
ان شاءاللہ کوشش کرتے ہیں 🙂
گل بہن کا اس لڑی میں آنا تو یقینی ہے اگر میری کاوش اس لڑی میں آپریشن کے لیے تشریف لے آئی تو 🙂
 

جاسمن

لائبریرین

صابرہ امین

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تیار ہوتے وقت اتنا تو خواتین بھی نہیں سوچتیں جتنا آپ نے سوچ لیا۔ کمال ہے!! :grin:
جی ہا ں ، بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے ۔ اُن کی تیاری کے دوران دو گھنٹے ٹہل ٹہل کر سوچنے کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا ہے ۔ 😐
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سچا شعر شائد دل کی آواز ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات و خیالات کو بے لاگ انداز میں بغیر کسی مصنوعیت کے پیش کرتا ہو۔۔۔
جی بالکل جب معلوم ہی نہ ہو کہ کوئی بھی احساس ہمارے دل میں کیا کیفیت پیدا کرتا ہے اس کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ۔
بہت اچھا سوال ہے۔ اگلے مراسلے میں تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیے ۔
دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اگر انداز بیان کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں تو رائی سے بھی پہاڑی سلسلہ شروع کر دیتے ہیں :grin: بلکہ ان کی کہانیاں سچے واقعات کی نسبت زیادہ دلچسپ اور کامیاب ہوتی ہیں۔ اپنے خدا اپنے ہاتھوں بنانے والوں نے ان دیومالائی خداؤں کے بارے میں ایسی ایسی دلچسپ کہانیاں بیان کی ہیں کہ الامان الحفیظ! تو عشق کا مزہ چھکے بغیر بھی قوت تخیل کے زور پر شاندار غزل لکھی جا سکتی ہے۔ اتنی شاندار کہ شاید اصل عشق کہیں پیچھے ہی رہ جائے ۔ ۔
آپ نے بلا قصد و ارادہ نہ صرف محاکات کی تعریف بیان کردی بلکہ تخیل پر بھی ننھی سی لیزر بیم ڈال دی ۔:)
 
Top