رانا

محفلین
اردو غزل میں البتہ سب سے نمایاں خوبی اور اور خامی یہ ہے یہ اس میں شاعر کے پاس اپنے تخیل کو اس کی نزاکت کے ساتھ رعایتِ لفظی کے تقاضوں اور اسلوب و بیان کی تاثیر سے مزین کرنے میں محض دو مصرعوں کی قید ہو تی ہے،اور اس پر طرہ یہ کہ عروضی حد میں ردیف قافیوں کا بوجھ بھی سہارنا پڑتا ہے ۔ یوں شاعر کے اوپر ان تمام عناصر کو اپنے خیال سے موافق رکھنا یقینا ایک مشکل کام ہوتا ہے ۔
میرے خیال میں تو یہ خامی یا خوبی ایک اچھی چیز ہے اس لئے کہ دو مصرعوں میں ایک مکمل مضمون بیان ہوجاتا ہے کیونکہ بعض طبائع لمبی نثر یا نظم پڑھنے سے گھبراتی ہیں تو ان کو موقع محل (دوران گفتگو یا تقریر) ایک شعر میں ہی بات سمجھ آجاتی ہے۔ البتہ شاعر کےلئے ایک شعر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا مشکل ہو تو اس کے پاس نظم یا قطعات کی صورت میں دیگر مواقع بھی موجود ہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو پہلے کسی تنقیدی نشست میں شرکت کا موقع ملا ہے یا نہیں ۔
جی نہیں، کبھی ایسا نادر موقع میسر نہیں آیا۔
امید ہے کہ آپ تلخ و شیریں تمام تبصرہ جات اور مکالمات کو مثبت انداز میں لیں گی اور مناسب انداز میں اپنے شعری نقطۂ نظر اور تخلیقی پس منظر کو بھی واضح کریں گے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ایسی تنقیدی نشستوں میں شاعر کو ہر قسم کے تبصرے اور ہر زاویے سے رائے زنی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شاعر کے لیے ان تمام آرا کو سننا اور سمجھنا ضروری ہے لیکن ہر رائے اور تبصرے سے متفق ہونا یا نہ ہونا لازم نہیں ۔
جی بالکل۔ میں اپنی شاعری کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانا چاہتی ہوں اور یہ سب ماہرین کی رائے جانے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
آپ کے نزدیک سخن کیا ہے اور کن جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہی سمجھنے کی کوشش ہے۔ ابھی تک تو کسی بھی خاص وجہ کے بغیر ہی سب ہو رہا ہے۔

ایسا کہنے سے محدودیت ختم ہوجاتی ہے اور مصرع ایک عام کیفیت کو بیان کرتا ہے جو بہت سارے قارئین کے لیے حسبِ حال ہوسکتی ہے اور یوں دوسرے مصرع سے مل کر یہ شعر اپنے تاثر میں ہمہ گیر ہوجاتا ہے۔
اوہ تو ایسا ہے۔ یعنی شعر میں ہمہ گیری ہو۔ محدود سوچ یا کیفیت نہ ہو۔

آپ نے واقعی شعر کو کافی سدھار دیا ہے۔ آپ کا اس متبادل کے بارے میں کیا خیال ہے۔

دلِ ناکام میں دن رات سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

مجبور سے زیادہ ناکام شاید بہتر ہو۔ ذاتی طور پر میں کوشش کی قائل ہوں۔ مجبوری مجھے کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ کوشش کر کے ناکام ہونا میرے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے۔
دن رات اس لیے کہ ناکامی کی شدت اور اس کے اثرات بہت زیادہ معلوم ہوں۔

ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے؎


دلِ ناکام میں خاموش سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

آپ کی رائے کی منتظر رہوں گی۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اردو غزل پر ایک الزام جو اکثر لگایا جاتا ہے وہ یہ کہ یہ غم و حزن کی شاعری ہے۔ اس پر یاسیت اور اداسی کی ایک کیفیت طاری رہتی ہے۔ مایوسی اور گریزپائی جابجا نظر آتے ہیں۔ صابرہ امین صاحبہ ، آپ کی اس زیرِ بحث غزل کو دیکھا جائے تو شروع کے کئی اشعار انہی کیفیات اور تاثرات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
آپ نے بجا فرمایا۔ یہی سوچ سوچ کر غزل کہی کہ درد کو کس کس طرح اور کن کن پہلوؤں سے اجاگر کیا جائے۔ میرے نزدیک اداسی کا بھی ایک الگ ہی مزا ہے۔ غم انسان میں ایک عجب گداز اور کیفیت پیدا کرتے ہیں کہ ہر حساس شخص متاثر ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ان کیفیات میں دیکھتا اور سوچتا ہے۔ ایسی باتیں دل کو متاثر کرتی ہیں ۔ شاعری میرے نزدیک دل کی باتیں بیان کرنا ہی ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
آپ کے ذاتی تجربے میں وہ کون سی کیفیات اور احساسات ہیں کہ جن کے خمیر سے سخن گوئی کی تحریک اٹھتی ہے؟
کوئی بھی خلاف معمول بات، انوکھی عجیب کیفیت سخن گوئی پر مائل کر سکتی ہے۔ مگر ان تمام باتوں کا تعلق کسی بھی فرد کے تجربات، زبان و بیان اور احساسات سے ہو سکتا ہے۔ ایک فرد کے لیے کوئی بات بہت اہم ہو سکتی ہے جبکہ دوسرے شخص کے لیے سرے سے نا معقول یا بے معنی۔
اور شاعر اس تحریکِ کو ایک سمت دینے پر کس حد تک اختیار رکھتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ بالکل کر سکتا ہے تبھی تو ہر اچھے شاعر کا اندازِ بیاں ایک مخصوص سوچ اور کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم جیسوں کے لیے یہ بات ابھی تو ایک خواب ہی ہے۔
کیا غم و حزن کی شاعری بذاتِ خود رد کیے جانے کے قابل ہے یا ادب کے منظر نامے پر اس کی کوئی جگہ بنتی ہے؟
غم و حزن دل میں، یعنی جذبات میں جو کیفیت اور احساسات پیدا کرتے ہیں ان کا مقابلہ خوشی و سرشاری کی کیفیت سے نہیں کیا جا سکتا۔ ایک الگ ہی کیفیت ہوتی ہے۔ مثلا میرے نزدیک عام لوگوں کے لیے چاہے جانے کا احساس اتنا قوی شاید نہ ہو جتنا ٹھکرائے جانے کی احساس ہو سکتا ہے۔ لوگ ٹریجک ڈرامے اور فلموں سے اسی لیے زیادہ متاثر ہو جاتے ہیں کہ یہ مناظر لوگوں کے جذبات میں طلاطم پیدا کر دیتے ہیں۔ میں بھی ایک عام سی ہی شاعرہ ہوں، سو عام سے ہی خیالات ہیں۔
جب زندگی غموں کے بغیر ممکن ہی نہیں تو ادب کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ انسانوں سے متعلق ہے تو انسانی کیفیات میں غم و حزن کا بڑا حصہ ہے۔ شائد روبوٹ پر شاعری کی جائے تو الگ بات ہے۔

ویسے معلوم نہیں کہ یہ جوابات کیسے ہیں۔ کبھی ان باتوں کو سوچا ہی نہیں۔ ظہیر بھائی، لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیے کہ ادب کو سوچا کیسے جاتا ہے؟
 

صابرہ امین

لائبریرین
میرے خیال میں تو یہ خامی یا خوبی ایک اچھی چیز ہے اس لئے کہ دو مصرعوں میں ایک مکمل مضمون بیان ہوجاتا ہے کیونکہ بعض طبائع لمبی نثر یا نظم پڑھنے سے گھبراتی ہیں تو ان کو موقع محل (دوران گفتگو یا تقریر) ایک شعر میں ہی بات سمجھ آجاتی ہے۔ البتہ شاعر کےلئے ایک شعر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا مشکل ہو تو اس کے پاس نظم یا قطعات کی صورت میں دیگر مواقع بھی موجود ہیں۔
واقعی کبھی کبھار ایک شعر بہت ساری باتوں پر بھاری ہوتا ہے ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
علی وقار ، وجی گپ شپ دوسری لڑی میں کر لیں گے۔ یہاں پر جو کلام پیش کیا گیا ہے اس پر تنقیدی تبصرے فرمائیں۔
اور ہمارے قابلِ قدر احباب الف عین ، محمد وارث ، محمداحمد ، عرفان علوی آپ بھی توجہ فرمائیے۔
چند دوستوں کو تو ویسے ہی ٹیگ کر لیا ہے۔ لیکن یہ دعوتِ عام ہے۔ تمام احباب اپنی قیمتی آراء کا اظہار فرمائیں
 

جاسمن

لائبریرین
اردو غزل میں البتہ سب سے نمایاں خوبی اور اور خامی یہ ہے یہ اس میں شاعر کے پاس اپنے تخیل کو اس کی نزاکت کے ساتھ رعایتِ لفظی کے تقاضوں اور اسلوب و بیان کی تاثیر سے مزین کرنے میں محض دو مصرعوں کی قید ہو تی ہے،اور اس پر طرہ یہ کہ عروضی حد میں ردیف قافیوں کا بوجھ بھی سہارنا پڑتا ہے ۔ یوں شاعر کے اوپر ان تمام عناصر کو اپنے خیال سے موافق رکھنا یقینا ایک مشکل کام ہوتا ہے ۔

میرے خیال میں تو یہ خامی یا خوبی ایک اچھی چیز ہے اس لئے کہ دو مصرعوں میں ایک مکمل مضمون بیان ہوجاتا ہے کیونکہ بعض طبائع لمبی نثر یا نظم پڑھنے سے گھبراتی ہیں تو ان کو موقع محل (دوران گفتگو یا تقریر) ایک شعر میں ہی بات سمجھ آجاتی ہے۔ البتہ شاعر کےلئے ایک شعر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا مشکل ہو تو اس کے پاس نظم یا قطعات کی صورت میں دیگر مواقع بھی موجود ہیں۔
میرے ذاتی خیال میں بھی بعض اوقات ایک شعر ، ایک طویل کہانی ، ایک داستان کو بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ چند لفظوں میں بہت بڑی حکایت بیان ہو جاتی ہے۔ نیز صرف وہی ایک شعر بے حد اثر انگیز ہوتا ہے۔ اور اگر وہی بات ہم نثر میں کرتے تو بہت وقت بھی صرف ہوتا اور الفاظ کی کثرت اور قصہ کی طوالت کے باوجود اثرانگیز شاید اس قدر نہ ہوتی۔
کسی کسی شعر کو پڑھ کے میں بہت حیران ہوتی ہوں کہ ہر انسان کا اپنا میدان ہے۔ اپنا ذہن ہے۔ سائنس دانوں کے ذہن میں نئی نئی باتیں آتی ہیں اور وہ نئی دریافتیں اور ایجادات کرتے رہتے ہیں۔ ایک شاعر زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کرتا اور بیان کرتا ہے تو بعض اوقات اس کے ایک شعر میں ایک پوری زندگی بند ہوتی ہے۔ اس کے ذہن کی اڑان اسے کس کس جگہ لے جاتی ہے۔
جیسے علامہ اقبال کے جواب شکوہ کا آخری شعر مجھے ایک مکمل سبق محسوس ہوتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے ذاتی خیال میں بھی بعض اوقات ایک شعر ، ایک طویل کہانی ، ایک داستان کو بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ چند لفظوں میں بہت بڑی حکایت بیان ہو جاتی ہے۔ نیز صرف وہی ایک شعر بے حد اثر انگیز ہوتا ہے۔ اور اگر وہی بات ہم نثر میں کرتے تو بہت وقت بھی صرف ہوتا اور الفاظ کی کثرت اور قصہ کی طوالت کے باوجود اثرانگیز شاید اس قدر نہ ہوتی۔
کسی کسی شعر کو پڑھ کے میں بہت حیران ہوتی ہوں کہ ہر انسان کا اپنا میدان ہے۔ اپنا ذہن ہے۔ سائنس دانوں کے ذہن میں نئی نئی باتیں آتی ہیں اور وہ نئی دریافتیں اور ایجادات کرتے رہتے ہیں۔ ایک شاعر زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کرتا اور بیان کرتا ہے تو بعض اوقات اس کے ایک شعر میں ایک پوری زندگی بند ہوتی ہے۔ اس کے ذہن کی اڑان اسے کس کس جگہ لے جاتی ہے۔
جیسے علامہ اقبال کے جواب شکوہ کا آخری شعر مجھے ایک مکمل سبق محسوس ہوتا ہے۔
جاسمن
ایسا عموما اس وقت ہوتا ہے جب شاعر اپنے کلام میں کسی کہانی یا داستان کے لیے کی طرف کسی لفظی علامت سے اشارہ کرتا ہے اور تخیل کی تائید میں پیش کرتا ہے۔ اسے شعری اصطلاح میں صنعتِ تلمیح کہا جاتا ہے۔

جیسے ذیل کے شعر میں تخلیق ِآدم کا قصہ شاعر کے کلمات کی لیے ایک تمثیل اور تائید بن کر آگیا ہے ۔
مت عبادت پہ پھولیو زاہد
سب طفیلِ گناہ ِآدم ہے
میر درد

میرا مدعا یہاں یہ تھا کہ غزل کے شعر میں شاعر کے لیے قصیدے یا مثنوی اور دیگر منظومات کی طرح زیادہ میدان نہیں ہوتا اور اسے ان تمام لفظی رعایت،اسلوب و بیان اور دریف قافیے کی قیود کے ساتھ تخیل کو ایک شعر کے پیکر میں سمونا پڑتا ہے ۔اس کے لیے وہ کلام میں مختلف صنائع اور بدائع کا سہارا لیتا ہے ۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
جاسمن
ایسا عموما اس وقت ہوتا ہے جب شاعر اپنے کلام میں کسی کہانی یا داستان کے لیے کی طرف کسی لفظی علامت کسے اشارہ کرتا ہے اور تخیل کی تائید میں پیش کرتا ہے۔ اسے شعری اصطلاح میں صنعتِ تلمیح کہا جاتا ہے۔

جیسے ذیل کے شعر میں تخلیق ِآدم کا قصہ شاعر کے کلمات کی لیے ایک تمثیل اور تائید بن کر آگیا ہے ۔
مت عبادت پہ پھولیو زاہد
سب طفیلِ گناہ ِآدم ہے
میر درد

میرا مدعا یہاں یہ تھا کہ غزل کے شعر میں شاعر کے لیے قصیدے یا مثنوی اور دیگر منظومات کی طرح زیادہ میدان نہیں ہوتا اور اسے ان تمام لفظی رعایت،اسلوب و بیان اور دریف قافیے کی قیود کے ساتھ تخیل کو ایک شعر کے پیکر میں سمونا پڑتا ہے ۔اس کے لیے وہ کلام میں مختلف صنائع اور بدائع کا سہارا لیتا ہے ۔
جی آپ درست کہہ رہے ہیں۔ آپ کی بات کو اپنے انداز میں آگے بڑھا رہی تھی، اختلاف نہیں تھا۔ نیز میں شاید اپنی بات سمجھا نہیں پائی۔ کہانی، واقعہ، پورا ایک سانحہ، ایک واردات، ایک وسیع کیفیت صرف دو مصرعوں میں۔ بعض اشعار کو پڑھ کے میں بہت حیران ہوتی ہوں اور مجھے نہ صرف شاعر کی تخیلاتی صلاحیتوں پہ رشک آتا ہے بلکہ اس کی الفاظ و معانی پہ گرفت پہ بھی حیرت ہوتی ہے۔
میرے پاس اپنی بات سمجھانے کے لیے کوئی بہت زیادہ الفاظ نہیں ہیں۔ :)
یہاں اتنے "بڑے" لوگ ہیں اور ہم طالب علم بھی شاید نہ کہلائیں۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں اپنی شاعری کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانا چاہتی ہوں اور یہ سب ماہرین کی رائے جانے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
شاعری میں ماہرین نہیں ہوتے۔ پہلے اساتذہ ہوا کرتے تھے ۔ اساتذہ کا کلام ان کے وسیع مطالعے ، گہری تربیت اور طویل ریاضت کے باعث دیگر شعرا کے لیے لسانی اور عروضی تقلید و تتبع کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ مجھے آپ زیادہ سے زیادہ سینئر یا نسبتاً تجربہ کار شاعر کہہ لیجئے ۔ سو اپنے تجربے اور تربیت کی لو سے شمع جلانے کا عمل ہے جوکررہا ہوں ۔
شاعری کے دو بڑے پہلو ہیں یعنی فکری اور فنی ۔ فکر ہر ایک کی اپنی ہوتی ہے ، اسے سکھایا نہیں جاسکتا ۔ ہر شخص اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے اپنی فکر و فلسفہ اخذ کرتا ہے ، اس کے خیالات وقت اور تجربے کے ساتھ ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ (اس فکری ارتقا کی کئی مثالیں شعرائے اردو میں موجود ہیں ۔ مثلاً جگر مرادآبادی آخری عمر میں مذہب اور تصوف کی طرف راغب ہوئے تو اس کا نمایاں اثر ان کی شاعری میں بھی نظر آنے لگا) ۔اس کے برعکس شاعری کا فنی اور تکنیکی پہلو سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے ۔ شاعر کی فنی تربیت پیرایۂ اظہار کو بہتر اور مؤثر تر بنانے کا نام ہے۔
یعنی شعر میں ہمہ گیری ہو۔ محدود سوچ یا کیفیت نہ ہو۔
کسی بھی خیال یا تجربے کو ذاتی حوالے سے بیان کرنا کوئی بری بات نہیں ۔ بعض صورتوں میں ایسا کرنا ہی بہتر ہوتا ہے لیکن عمومی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جس خیال یا مضمون میں ہمہ گیریت یا آفاقیت کا عنصر موجود ہو وہ زیادہ قابلِ قبول ہوتا ہے ۔ قاری اپنے تجربے اور احساس کو ایسے شعر کے ساتھ بہ آسانی relate کرسکتا ہے۔ ایک مثال فوری طور پر ذہن میں آرہی ہے ۔ اگر اقبالؔ یہ کہتے کہ"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔۔ مرے عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" تو مضمون پست ہوجاتا ۔ "مرے عشق" کی محدودیت ختم کر کے مضمون کی تعمیم کرنے سے شعری مضمون اونچا ہوگیا ہے۔
شاعری میرے نزدیک دل کی باتیں بیان کرنا ہی ہے۔
متفق۔ سچی شاعری انہی کیفیات اور محسوسات سے پھوٹتی ہے جو قلب و جاں پر گزرتے ہیں ۔ قافیہ پیمائی اور خالص شاعری میں یہی فرق ہے ۔ بقول اطہر نفیس: کوئی مہر نہیں ، کوئی قہر نہیں ، پھرسچا شعر سنائیں کیا ۔ اور فیض صاحب بھی کہہ گئے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اور شاعر اس تحریکِ کو ایک سمت دینے پر کس حد تک اختیار رکھتا ہے؟

میرا خیال ہے کہ بالکل کر سکتا ہے تبھی تو ہر اچھے شاعر کا اندازِ بیاں ایک مخصوص سوچ اور کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم جیسوں کے لیے یہ بات ابھی تو ایک خواب ہی ہے۔
متفق۔ اگرچہ شعر کا تخلیقی محرک بہت سارے شعرا کے لیے ایک سا ہوسکتا ہے لیکن ہر شاعر اپنے زاویۂ نظر اور اپنے مخصوص اسلوب کے باعث شعر کو ایک الگ رنگ عطا کرتا ہے ۔ یعنی :کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور ۔ شعری تربیت کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ شاعر تجزیئے اور ریاضت کی مدد سے اپنا اسلوب پیدا کرے۔ کسی مضمون کو اپنے مخصوص اسلوب کے ذریعے ادا کرنے کی صلاحیت قدرتِ کلام کا تقاضا کرتی ہے۔ اور قدرتِ کلام وسیع مطالعے ، تجزیے اورمشق سے پیدا ہوتی ہے۔ اور ان تمام چیزوں کے لیے لگن اور شوق کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست ۔
آپ کا اس متبادل کے بارے میں کیا خیال ہے۔

دلِ ناکام میں دن رات سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

مجبور سے زیادہ ناکام شاید بہتر ہو۔ ذاتی طور پر میں کوشش کی قائل ہوں۔ مجبوری مجھے کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ کوشش کر کے ناکام ہونا میرے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے۔
دن رات اس لیے کہ ناکامی کی شدت اور اس کے اثرات بہت زیادہ معلوم ہوں۔

ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے؎


دلِ ناکام میں خاموش سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

آپ کی رائے کی منتظر رہوں گی۔
بہت خوب! دلِ ناکام کی ترکیب اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ بہت خوب ہے۔ چونکہ یہ الفاظ آپ کی سوچ کے عکاس ہیں اس لیے کوئی اور صورت اس سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ البتہ دن رات کا استعمال میرے نزدیک حقیقت کا عکاس نہیں ۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
یہ ہمی ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
(صؔبا اکبرآبادی)
نیز "خاموش" کی نسبت " چپ چاپ "صوتی طور پر زیادہ رواں اور تنافر سے دور ہے۔

@ظہیر بھائی، لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیے کہ ادب کو سوچا کیسے جاتا ہے؟
یہ سوال مجھے اہم لگ رہا ہے ۔ لیکن اس سوال پر مجھے آپ کی طرف سے مزید وضاحت و صراحت درکار ہوگی ۔ فی الحال اس سوال کو آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل
صابرہ امین ، آپ کی غزل کا یہ شعر سطحی سا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ یہ شعر ایک سپاٹ سا بیانیہ ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اظہار کا یہ اسلوب وہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا کہ جو مطلوب ہے ۔ مصرعِ اول میں "اس" کا لفظ بے معنی حشو و زائد میں شمار ہوگا۔ "اس" ایک لفظِ اشارہ ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس محبت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔نظم یا مسلسل غزل میں تواس لفظِ اشارہ کے استعمال کی صورت ممکن ہوسکتی ہے لیکن غزل کے مفردشعر میں یہاں اس کا کوئی محل نہیں ۔ جدائی کے بیان سے محبت کا وجود ویسے ہی ثابت ہورہا ہے سو محبت کہنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ تیسری بات یہ کہ "ہر شام" کہنے کی کوئی معنویت نظر نہیں آ رہی۔ شام ہی کیوں؟؟ چوتھی بات یہ کہ خوف کی بھی کوئی خاص توجیہہ یا توضیح نظر نہیں آتی۔( اگرچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاعر عرصہٌ ہجر میں مختلف قسم کے اندیشوں یا خوف سے گزررہا ہے)۔

میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔
یعنی کسی غیر مرئی شے کوایک شخصیت یا کردار کا روپ دے دینا۔ شاعری میں اس تکنیک کے مناسب استعمال سے ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قاری کے ذہن میں ایک بہترتصویر جنم لیتی ہے اور شعر کے ابلاغ میں مدد دیتی ہے۔ مثال کے طور پر فیض کی یہ نظم دیکھیے:

اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
۔ ۔ ۔ الخ


اس نظم میں دل ، درد اور ہجر کی تجسیم کرکے شاعر نے ایک تمثیل پیدا کردی ہے ۔ چنانچہ نظم میں ایک ساکت سے منظر نامے کے بجائے حرکت اور فعالیت نظر آتی ہے ۔
اسی تکنیک کو آپ کے زیرِ بحث شعر پر استعمال کیا جائے تو میری رائے میں ایک صورت یہ پیدا کی جاسکتی ہے:

اپنے شانوں پہ جدائی کے عذابوں کو لیے
شہرِ فرقت میں ہر اک گام ٹھٹکتی ہے غزل

اس طرح سے میری رائے میں بیانیے کا سپاٹ پن ختم ہوجاتا ہے اورقاری تک ایک بہتر لفظی تصویر پہنچتی ہے ۔ دوسرے مصرع کو کئی اور صورتیں دے کر مختلف منظر نامے بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔
 
بہت شکریہ، نوازش۔ جیسے ہی یہ دھاگا کھلا اور میری نظر اس پر پڑی، تو پہلا کام جاسمن بہن سے مکالمے کے ذریعے رابطہ کیا-شاعری کے فکری اور موضوعاتی پہلوؤں پر بات چیت اور اصلاحی تنقید نے سیکھنے کے جذبے اور خواہش کو اور بڑھا دیا ہے۔ اسی جذبے کے تحت اپنی ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کرتی ہوں اس امید کے ساتھ کہ شاعری کے حوالے سےاللہ میرے ذہن کی تمام گرہیں کھول دیں اور شاعری میرے لیے آسان بنا دیں۔ آمین

تو آپ سب معزز ین کے لیے یہ غزل حاضر ہے ۔ یہ اصلاحِ سخن سے ہو کر اس قابل ہوئی ہے کہ آپ کے سامنے پیش کر سکوں تاکہ آپ کی تنقید، بات چیت میری شاعری کے فکری خامیوں کا بھی احاطہ کر سکے۔ آپ کی گراں قدر رہنمائی کی منتظر ہوں۔

دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

مرے اشکوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں پیہم جو دہکتی ہے غزل

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے
ایسے ناکامیِ الفت پہ بلکتی ہے غزل

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں
یوں شبستان میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل

عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود
بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل
سب سے پہلے تو یہ سلسلہ شروع کرنے كے لیے محترم الف عین صاحب کا اور جاسمن بہن کا، اور خاکسار کو یہاں مدعو کرنے كے لیے محمد عبدالرؤوف بھائی کا شکریہ ! میں خود کو تنقید کا اہل نہیں سمجھتا . لیکن یہ کام اِس امید پر کر رہا ہوں کہ شاید اِس کوشش میں مجھے خود اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے .

صابرہ بہن، آپ کی غزل نے مجھے اپنی ایک بیس سال پرانی غزل یاد دلا دی جس میں دھڑکتا، تھرکتا وغیرہ قوافی تھے . خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا .آپ كے دو اشعار پر کچھ باتیں عرض ہیں . ممکن ہے آپ كے لیے کار آمد ثابت ہوں .

چھٹے شعر میں ’نغمے‘ موصوف ہے اور ’جن پر عشق کی راہوں میں غزل تھرکتی ہے‘ صفت ہے . یہاں فوکس ’نغموں‘ پر آ گیا ہے، جب کہ ہونا ’غزل‘ پر چاہیے . میری ناچیز رائے میں آپ ’وہ نغمے جن پر‘ کی جگہ ’جو نغمے ان پر‘ کہیے اور پِھر فرمائیے کہ غزل ان نغموں سے کیا ترغیب پاتی ہے جو دِل كے تاروں سے نکلتے ہیں . علاوہ اَز ایں ’عشق کی راہوں میں‘ نکال دیجئے . اِس کی چنداں ضرورت نہیں . ’ دِل كے تاروں‘ سے پہلے ہی معلوم ہو گیا کہ معاملہ راہ عشق کا ہے . پِھر ’راہوں میں تھرکنا‘ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا . ’عشق کی راہوں میں‘ والی جگہ کسی بہتر مصرف كے لیے استعمال کیجیے . یہاں آپ اس کیفیت کو بیان کر سکتی ہیں جس میں غزل تھرکتی ہے مثلاً ’ایک دیوانی سی بے باک تھرکتی ہے غزل .‘

ساتویں شعر میں ’جذبات دھڑکنا‘ کی ترکیب میری نگاہ سے نہیں گزری . دِل بذات خود دھڑکتا ہے . اس میں کسی اور شئے کا دھڑکنا نا قابل فہم ہے . پِھر ’شبستان‘ میں ’غزل‘ كے دھڑکنے کا واقعہ بھی عجیب ہے . شبستان انسان كے سونے کی جگہ ہے . وہاں غزل جیسی غیر مادی چیز کیسے موجود ہو سکتی ہے . شاید آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ غزل ذہن میں ہے، ذہن جسم میں اور جسم شبستان میں، اِس لیے غزل بھی شبستان میں ہوئی . اگر ہاں، تو یہ تعلق دور از قیاس ہے .اگر مراد یہ ہے کہ غزل کی آمد شبستان میں ہوتی ہے ، تو یہ موقف صفائی سے ادا نہیں ہوا . لفظ ’بےتاب‘ کا استعمال بھی وضاحت طلب ہے . میری ناچیز رائے میں آپ اِس شعر كے خیال اور بیان پر بغور نظر ثانی کریں .
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
یہ شاخ اسکرین کو تو نہیں کہ رہیں یہ کنفرم کرنا تھا بھائی۔
کوئی بھی بالکل سنبھل کر نہ بیٹھے۔ یہ زمانے کی بات ہو رہی ہے۔ :grin:
یہ کس پیرائے میں بات ہورہی ہے کچھ وضاحت کریں ۔

بھئی کس پیرائے میں ہو سکتی ہے وجی بھائی؟؟
اب تو وہ حالت ہو چکی ہے کہ الو کے آگے دو لفظ اور لکھنے چاہیئیں۔ ۔

اس شعر میں تو الوؤں کی سراسر توہین ہو رہی ہے۔ :grin:
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
جزاک اللہ خیر ۔ ۔کئی باتیں ذہن میں سلجھ گئی ہیں اگرچہ ان کا استعمال مشق اور مطالعے کا متقاضی ہے۔ کیا بات ہے آپ کی!! (y)(y)

البتہ دن رات کا استعمال میرے نزدیک حقیقت کا عکاس نہیں ۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
یہ ہمی ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
(صؔبا اکبرآبادی)
صبا اکبر آبادی اور صابرہ امین میں یہی فرق ہے۔ ایسے اعلی پائے کا شاعر اور انسان ہونا آسان نہیں۔ یہ صبا اکبر آبادی کے بارے میں کہا ہے۔ :biggrin: ہمارے شعر ہماری سوچ اور شخصیت کے عکاس ہیں۔ اچھی ہے یا بری خالص ہماری ہے۔ اور یہ موڈ پر بھی منحصر ہے۔

یعنی مار دیا جائے کہ چھوڑ دیا جائے!! :grin:

ہم تو ہزار بار روئیں گے اگر کوئی ہمیں رلائے گا ۔ مژگاں کھولے بغیر آنسوؤں کے سیلاب میں شہر کو ڈبو دیا جائے گا!
جی ہاں ۔ یہ حتمی بات ہے! :stormycloud::stormycloud::stormycloud::stormycloud:

آپ بھی عاشقی کا وہ زمانہ یاد کیجیے جب چپکے چپکے رات دن آنسو بہایا کرتے تھے!

بھئی آپ نہیں ، اپنے مہدی حسن صاحب! :grin:

تو اگر کوئی اور قباحت نہیں تو ہمیں دن رات رونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس فقط یہی ہتھیار ہے۔ :grin:

نیز "خاموش" کی نسبت " چپ چاپ "صوتی طور پر زیادہ رواں اور تنافر سے دور ہے۔

ہمیں چپ چاپ رونے میں بھی کوئی اعتراض نہیں اگر تنافر ناقابل برداشت ہے۔ ویسے ہم تو اس قسم کی صورتحال میں مخالف فریق کو بھی آٹھ آٹھ آنسو رلانے پر کامل یقین رکھتے ہیں۔

یہ ایسے ہی لکھ دیا ہے۔ اس کو سنجیدہ نہ لیا جائے!:grin:
 
Top