ہجر میں ہم نے صنم جتنے زخم جھیلے ہیں
پوچھیے مت! سبھی یہ آپ کے وسیلے ہیں

کبھی چاہو، تو آ جانا! ہمارے پاس کہ اب بھی
تمہارے بن، قسم تیری! بہت زیادہ اکیلے ہیں

بھلے ہی عشق سننے میں بہت بے کار لگتا ہے
سبھی گلشن کے رنگ و ڈھنگ اسی سے ہی سجیلے ہیں

ہمیں تو یاد ہے اب بھی تمہارا روٹھ کر کہنا
چلے جاؤ کہ تم بن سب یہاں پر بہت اچھے ہیں

ہے دہرا پن نفس ہر میں، خلوص اب کون رکھتا ہے
محبت منہ تلک ہوتی ہے دل میں سب کے کینے ہیں

بلانا ہم کو ساقی جب تو لہجہ سخت رکھنا کہ
ترے غصے بھرے سب لفظ بے حد ہی رسیلے ہیں

انہی کو یاد کرتا ہے، فخرؔ اور کر کیا سکتا ہے؟
ابھی اک عمر باقی ہے اور یوں ہی زہر پینے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
زیادہ تر اشعار مفاعیلن چار بار کے افاعیل پر ہیں اس لئے اسی کو بحر مان کر چلتے ہیں۔
تلفظ کی اغلاط زیادہ ہیں غزل میں،
کہ اور نہ کو یک حرفی باندھا جاتا ہے، کے اور نا کے طور پر نہیں
زیادہ کی ی نہیں گرائی جاتی کہ اسے زادہ کی طرح باندھیں، اسے لبادہ کے وزن پر باندھا جاتا ہے
بہت میں ہ ساکن ہے
فخر میں خ ساکن ہے
ہر نفس میں کی بجائے نفس ہر میں درست نہیں
وغیرہ
ان کو سدھار لیں پھر دیکھتا ہوں
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم محمد فخر سعید صاحب آپ سب سے پہلے محترم اسامہ سرسری کی کتاب آؤ شاعری سیکھیں کا مطالعہ کر لیں اور پھر قافیہ بندی کے لیے ہم نئے سیکھنے والوں کے لیے کچھ دوستوں نے ایک موبائل ایپلیکیشن قافیہ ایکسپرٹ بنائی ہے اس میں سے کچھ قافیے چھانٹ لیں پھر جب کچھ شعر ہو جائیں تو عروض پر جا کر اسے کسی مناسب بحر میں لے آئیں پھر اساتذہ کی خدمت میں پیش کریں ورنہ میرے بھائی اساتذہ مصروفیت کی وجہ اپ کی زیادہ رہنمائی سے قاصر رہیں گے
 
Top