اس کا گلہ نہیں کہ دُعا بے اثر گئی - تلوک چند محروم

کاشفی

محفلین
غزل
(تلوک چند محروم)

اس کا گلہ نہیں کہ دُعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی

اے ہم نفس، نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی، اِدھر آئی، اُدھر گئی

دامِ غمِ حیات میں الجھا گئی اُمید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی

اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دین
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی

انجام حسن گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی

بس اتنا ہوش تھا مجھے روزِ وداع ِ دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی

ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔ سبھی اشعار لاجواب ہیں، بہت شکریہ کاشفی صاحب شیئر کرنے کیلیے۔

ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقت پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی

اس شعر کو پلیز دیکھ لیں، میرے خیال میں لفظ 'وقت' کی جگہ 'وقفِ' ہوگا۔
 

رانا

محفلین
بہت عمدہ غزل ہے۔
اس کا گلہ نہیں کہ دُعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
بہت خوب۔ شکریہ کاشفی صاحب۔
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب , فاتح صاحب , وارث صاحب، رانا صاحب اور جیہ بہن آپ سب کا بیحد شکریہ خوش رہیں۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
لالہ تلوک چند محروم عیسی خیل/ میانوالی میں پیدا ہوئے کا تعلق ہمارے ضلع اٹک سے اسطرح بنتا ہے کہ وہ اٹک کی تحصیل تلہ گنگ (جو اب ضلع چکوال کی تحصیل ہے ) بطور مدرس اور پھر صدر مدرس کے طور پر کام کرتے رہے۔تقسیم ہند کے وقت تلوک چند محروم ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے لیکن اپنے آبائی وطن کی یادوں کو اپنے دل سے محو نہ کر سکے۔
دریائے سندھ (جسے اباسین، شیر دریا ، انڈس ریور اور دریائے اٹک کے علاوہ کئی ناموں سے جانا جاتا ہے) گوکہ پاکستان کے مختلف مقامات سے گزرتا ہے لیکن اٹک اور میانوالی سے اس کا ایک مضبوط تہذیبی رشتہ ہیے یہاں تک کہ اٹک کے مقام پر یہ دریا اپنا نام تبدیل کر کے دریائے اٹک بن جاتا ہے" ذیل کے شعر میں تلوک چند نے اپنے وطن کی محبت کو شیر دریا (دریائے سندھ) کی موجوں کے پیچ و تاب سے ظاہر کیا ہے۔
ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی
 

کاشفی

محفلین
لالہ تلوک چند محروم عیسی خیل/ میانوالی میں پیدا ہوئے کا تعلق ہمارے ضلع اٹک سے اسطرح بنتا ہے کہ وہ اٹک کی تحصیل تلہ گنگ (جو اب ضلع چکوال کی تحصیل ہے ) بطور مدرس اور پھر صدر مدرس کے طور پر کام کرتے رہے۔تقسیم ہند کے وقت تلوک چند محروم ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے لیکن اپنے آبائی وطن کی یادوں کو اپنے دل سے محو نہ کر سکے۔
دریائے سندھ (جسے اباسین، شیر دریا ، انڈس ریور اور دریائے اٹک کے علاوہ کئی ناموں سے جانا جاتا ہے) گوکہ پاکستان کے مختلف مقامات سے گزرتا ہے لیکن اٹک اور میانوالی سے اس کا ایک مضبوط تہذیبی رشتہ ہیے یہاں تک کہ اٹک کے مقام پر یہ دریا اپنا نام تبدیل کر کے دریائے اٹک بن جاتا ہے" ذیل کے شعر میں تلوک چند نے اپنے وطن کی محبت کو شیر دریا (دریائے سندھ) کی موجوں کے پیچ و تاب سے ظاہر کیا ہے۔
ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب

محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی

مزید کچھ تعارفِ شاعر:
تلوک چند محروم، مشہور اردو اسکالر اور شاعر جگن ناتھ آزاد کے والد تھے۔
بشکریہ: دور درشن اُردو
 

کاشفی

محفلین
غزل
(تلوک چند محروم)
اس کا گلہ نہیں کہ دُعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی

اے ہم نفس، نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی، اِدھر آئی، اُدھر گئی

دامِ غمِ حیات میں الجھا گئی اُمید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی

اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دیں
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی

انجام فصلِ گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی

بس اتنا ہوش تھا مجھے روزِ وداع ِ دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی

ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی
 
Top