اب کی بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے ۔ فاتح الدین بشیر

مغزل

محفلین
مگر ایک سوال پھر سے دماغ میں ٹھونگیں مارر ہا ہے کہ :
ہوئے کیوں‌نہ غر قِ دریا --------- کو کیا --------- ہوئے کیوں نغرقِ دریا --- پڑھا جائے گا کیا ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
مگر ایک سوال پھر سے دماغ میں ٹھونگیں مارر ہا ہے کہ :
ہوئے کیوں‌نہ غر قِ دریا --------- کو کیا --------- ہوئے کیوں نغرقِ دریا --- پڑھا جائے گا کیا ؟

مغل صاحب ایک اصول کی بات یاد رکھیں جو کہ عروض کی سب کتب میں لکھی ہوئی ہے کہ تقطیع میں الفاظ چاہے کچھ کے کچھ بن جائیں لیکن شعر پڑھتے وقت انکا صحیح تلفظ ادا ہوگا۔

دوسری یہ کہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ "ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا" میں کیا مشکل ہے، یہ پڑھا ایسا ہی جائے گا جیسا کہ لکھا ہے لیکن جب اسکی تقطیع ہوگی تو یہ یوں لکھا جائے گا (یاد رہے کہ صرف لکھا جائے گا):

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

ہُ ء مر کِ - فعلات
ہم جُ رس وا - فاعلاتن
ہُ ء کو نَ - فعلات
غر قِ در یا - فاعلاتن

نَ کَ بی جَ - فعلات
نا زَ اٹ تا - فاعلاتن
نَ کَ ہی مَ - فعلات
زا ر ہو تا - فاعلاتن

غور فرمائیں کہ تقطیع کہ دوران جو عروضی متن میں نے لکھا ہے، جو کہ تقطیع کے اصولوں کے مطابق ہے، اس کو مرزا اگر کہیں مشاعرے میں پڑھ دیتے تو ذوق اور انکے یار باش مرزا کا وہ حال کرتے کہ اللہ کی پناہ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ عروضی متن چیزے دیگری ہے، جب کا شعر کا تلفظ ہمیشہ اصل زبان پر ہوتا ہے نا کہ عروض و تقطیع کے متن پر۔

والسلام
 
اب کے بار مل۔۔۔۔۔

نئے سال کے حوالے سے تین پرانے اشعار۔۔۔ چند سال قبل یہ غزل لکھی تھی لیکن شاید حالات کی نذر ہو گئی اور اس وقت نجانے کہاں ہے۔ اگر مکمل غزل کہیں لکھی ہوئی مل گئی یا یاد آ گئی تو پیش کر دوں گا۔

اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے

تجھ کو بھول جانے کی پھر قسم اٹھائیں گے
حسبِ سابق اب کے بھی عہد نہ نبھائیں گے

آج شب جو ٹوٹے ہیں آسماں سے دو تارے
زندگی کے محور پر کیا وہ لوٹ پائیں گے​
فاتح الدین بشیر صاحب نے اپنے تین شعر سناکے ہمیں کیا ہماری طبع کو رواں کردیا ان کا شکریہ!


اب کے بار مل کے جو سال نو منائیں گے
ہم نے سوچا ہے روٹھے یار کو منائیں گے

زندگی کی راہوں میں ملتے ہیں بچھڑتے ہیں
جو ملا سر راہے تم کہو منائیں گے

اک غزل ہو ایسی بھی آج سی نہ کل جیسی
یعنی قاری روٹھے گا، شعر گو منائیں گے

نغمگی کے پیکر میں کس نے ان کو ڈھالا ہے
نغمہ گر یہ کہتے ہیں دوستو منائیں گے


دل سے آہ نکلے گی لوگ واہ کہہ دیں گے
عید پھر بھی آئے گی عید تو منائیں گے
فی الحال اسی پر قناعت کرلیں انشااللہ جلد تازہ کلام کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں
والسلام سید انور جاوید ہاشمی مبتدی:cool:
 

مغزل

محفلین
ہاشمی صاحب آپ نے بھی نہ کا استعمال کیا ہے ۔۔ میں پریشان ہوکر رہ گیا ہے ۔
جب تک نہیں معلوم تھا سب ٹھیک تھا جوں جوں معلوم ہونا شروع ہوا ۔۔
بس اللہ کی پناہ ۔
 
فاتح الدین بشیر صاحب کے لیے

بہت شکریہ قبلہ ہاشمی صاحب۔ آپ کی محبتوں کا احسان مندہوں۔
میں سمجھتا ہوں‌کہ میں ان اعتراضات اور ان اعتراضات پر سوال اٹھا کر سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ اعجاز اختر اور آصف شفیع صاحبان کی رائے سے صرف نظر نہیں کر سکتا کہ قدما کی شاعری میں نہ کی تقطیع کا یہی دستور تھا۔ جب کہ جدید شعرا کے ہاں اس روایت کی پاسداری نہیں پائی جاتی۔ اور ہم ٹھہرے جدت کے قائل:)[
/quote]
جناب فاتح الدین بشیر صاحب پھر بھی خوش رہئے!
اللہ کرے آپ یون ہی جدت کے بلکہ نئی جدت کے اسیر و خوگر رہیں مگر سوال یہ ہے کہ غالب،سراج اورنگ آبادی یا ہمارے زمانے کے ابن انشا تک نے اسے یک حرفی جان کر کیوں نہ لکھا،برتا

جیسے غالب لکھتے نکہین جنازہ اٹھتا نکہیں مزار۔۔۔۔۔۔۔سراج لکھتے نجنوں رہا۔۔۔۔
ہاں ہوا بھی ہے درد منت کش دوا نہوا ظاہر ہے وہاں غالب نے ایسا ہی سمجھا ہوگا
خیر اندیش سید انور جاوید ہاشمی
 

مغزل

محفلین
ہاشمی صاحب ۔۔۔۔ لیجیے آپ نے اور مسئلہ کھڑا کردیا ۔

ہم شاید نہ ( نہیں) میں ہی اٹکے ہوئے ہیں جبکہ یہاں معاملہ مرکب (ورنہ )۔۔ ( وگرنہ ) کی طرف ہے ۔
میں ایک بار پھر یہ مراسلات پڑھتا ہوں۔۔ خیر۔۔
 
جواب دیکھیے

مگر ایک سوال پھر سے دماغ میں ٹھونگیں مارر ہا ہے کہ :
ہوئے کیوں‌نہ غر قِ دریا --------- کو کیا --------- ہوئے کیوں نغرقِ دریا --- پڑھا جائے گا کیا ؟

ہرگز نہیں عرض کیا فاتح الدین بشیر صاحب سے کہ

کہیں نہ کی ہ کو متروک کرکے وصل بھی کیا جاتا ہے جیسے غالب
درد منت کش دوا نہوا اور غالب ہی کی طرح ذوق کے ہاں

نہوا پر نہوا میر کا انداز نصیب دونوں طرح درج ہے نہ ہوا بھی

اگر سیکھنا ہے تو مطالعے میں منہمک ہونا پڑے گا ایک دن یا ایک سال میں کچھ نہیں ہوتا
میر انیس نے کیوں کہا
پانچویں پشت میں آکے عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں گویا ان کو سینہ در سینہ بھی بہت کچھ ملا اور پھر
میرے زور قلم کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔آگے حد ادب
سید انورجاوید ہاشمی
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ قبلہ ہاشمی صاحب۔ آپ کی محبتوں کا احسان مندہوں۔
میں سمجھتا ہوں‌کہ میں ان اعتراضات اور ان اعتراضات پر سوال اٹھا کر سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ اعجاز اختر اور آصف شفیع صاحبان کی رائے سے صرف نظر نہیں کر سکتا کہ قدما کی شاعری میں نہ کی تقطیع کا یہی دستور تھا۔ جب کہ جدید شعرا کے ہاں اس روایت کی پاسداری نہیں پائی جاتی۔ اور ہم ٹھہرے جدت کے قائل:)[
/quote]
جناب فاتح الدین بشیر صاحب پھر بھی خوش رہئے!
اللہ کرے آپ یون ہی جدت کے بلکہ نئی جدت کے اسیر و خوگر رہیں مگر سوال یہ ہے کہ غالب،سراج اورنگ آبادی یا ہمارے زمانے کے ابن انشا تک نے اسے یک حرفی جان کر کیوں نہ لکھا،برتا

جیسے غالب لکھتے نکہین جنازہ اٹھتا نکہیں مزار۔۔۔۔۔۔۔سراج لکھتے نجنوں رہا۔۔۔۔
ہاں ہوا بھی ہے درد منت کش دوا نہوا ظاہر ہے وہاں غالب نے ایسا ہی سمجھا ہوگا
خیر اندیش سید انور جاوید ہاشمی

محترم سید انور جاوید ہاشمی صاحب، واللہ میں آپ کے اس مراسلہ سے آپ کی رائے اخذ نہیں کر پایا کہ آپ 'نہ' کی ہائے مخفی کو محض ہجائے کوتاہ تسلیم کرتے ہیں‌یا ضرورت شعری کے تحت اسے ہجائے بلند کے طور پر بھی استعمال کرنے کے قائل ہیں؟
 

آصف شفیع

محفلین
مگر ایک سوال پھر سے دماغ میں ٹھونگیں مارر ہا ہے کہ :
ہوئے کیوں‌نہ غر قِ دریا --------- کو کیا --------- ہوئے کیوں نغرقِ دریا --- پڑھا جائے گا کیا ؟

مغل صاحب، یہ تو بہت ابتدائی باتیں ہیں۔ وارث صاحب نے اس کی پوری وضاحت کر دی ہے۔ آپ وارث صاحب کا نقطہ نظر پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں۔ انشاءاللہ دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی۔:):):):)!!
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب، یہ تو بہت ابتدائی باتیں ہیں۔ وارث صاحب نے اس کی پوری وضاحت کر دی ہے۔ آپ وارث صاحب کا نقطہ نظر پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں۔ انشاءاللہ دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی۔:):):):)!!


حضور میں اپنی جگہ مطمعن ہوں ۔ مگر کچھ سوالات ہم سے بھی پوچھے گئے جو ہم نے یہاں اٹھائے ،
دین و دنیا کی فلاح کا سن کر جی خوش ہوا۔ کہ آپ بھی :)grin:) ہیں۔۔ ویسے شعری کامیابی کی دعا بھی دے دیا کریں۔
 

فاتح

لائبریرین
سال 2016 کے موقع پر ایک مرتبہ پھر یہی تین اشعار حاضر ہیں
اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے

تجھ کو بھول جانے کی پھر قسم اٹھائیں گے
حسبِ سابق اب کے بھی عہد نہ نبھائیں گے

آج شب جو ٹوٹے ہیں آسماں سے دو تارے
زندگی کے محور پر کیا وہ لوٹ پائیں گے​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سال 2016 کے موقع پر ایک مرتبہ پھر یہی تین اشعار حاضر ہیں
اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے

تجھ کو بھول جانے کی پھر قسم اٹھائیں گے
حسبِ سابق اب کے بھی عہد نہ نبھائیں گے

آج شب جو ٹوٹے ہیں آسماں سے دو تارے
زندگی کے محور پر کیا وہ لوٹ پائیں گے​
فاتح ! کیا بات ہے بھئی!! بہت خوبصورت! تیسرا شعر کیا اچھا ہے۔
سالِ نو کی اصل ریزولیوشن تو یہ ہے آپ کی۔ دوسری والی تو صرف پھلجھڑیاں اور پٹاخے چھُڑوانے کے لئے لکھی تھی شاید۔ خوب آتش بازی ہوئی ہے جناب ! دیکھ کر مزا آیا ۔ خدا تمام محفلین کو شاد و آباد رکھے ۔ خوش رہیں ۔
ویسے آتش بازی تو اس لڑی میں بھی خوب ہوئی ہے ’’ نہ ‘ کے مسئلےپر۔ آپ کے سوال سے صدفیصد متفق ہوں ۔ جس طرح اردو زبان اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اسی طرح عربی اور فارسی سے درآمد شدہ اردوعروض کو بھی اپنے اندر لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم اہلِ اردو اکثر لسانی اور عروضی معاملات میں لکیر کے فقیر واقع ہوئے ہیں ۔ خیر، یہ تو ایک اور موقع کی بحث ہے۔ فی الحال آپ کی اس قراردادِ سالِ نو پر آمین ، ثم آمین!
 

فاتح

لائبریرین
فاتح ! کیا بات ہے بھئی!! بہت خوبصورت! تیسرا شعر کیا اچھا ہے۔
سالِ نو کی اصل ریزولیوشن تو یہ ہے آپ کی۔ دوسری والی تو صرف پھلجھڑیاں اور پٹاخے چھُڑوانے کے لئے لکھی تھی شاید۔ خوب آتش بازی ہوئی ہے جناب ! دیکھ کر مزا آیا ۔ خدا تمام محفلین کو شاد و آباد رکھے ۔ خوش رہیں ۔
ویسے آتش بازی تو اس لڑی میں بھی خوب ہوئی ہے ’’ نہ ‘ کے مسئلےپر۔ آپ کے سوال سے صدفیصد متفق ہوں ۔ جس طرح اردو زبان اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اسی طرح عربی اور فارسی سے درآمد شدہ اردوعروض کو بھی اپنے اندر لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم اہلِ اردو اکثر لسانی اور عروضی معاملات میں لکیر کے فقیر واقع ہوئے ہیں ۔ خیر، یہ تو ایک اور موقع کی بحث ہے۔ فی الحال آپ کی اس قراردادِ سالِ نو پر آمین ، ثم آمین!
آپ کی محبت ہے جناب من۔
آپ صحیح پہنچے ہیں تہہ تک کہ وہ پھلجھڑی ہی تھی جو ہم نے وہاں چھوڑی اور اس پر پٹاخے بھی خوب پھوٹے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سال 2016 کے موقع پر ایک مرتبہ پھر یہی تین اشعار حاضر ہیں
اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے

تجھ کو بھول جانے کی پھر قسم اٹھائیں گے
حسبِ سابق اب کے بھی عہد نہ نبھائیں گے

آج شب جو ٹوٹے ہیں آسماں سے دو تارے
زندگی کے محور پر کیا وہ لوٹ پائیں گے​
زبردست ترین۔۔۔۔۔
 
واہ فاتح بھائی کیا کہنے۔ بہت خوب۔

اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے
کاش، اے کاش
آج شب جو ٹوٹے ہیں آسماں سے دو تارے
زندگی کے محور پر کیا وہ لوٹ پائیں گے
بہت ہی عمدہ۔ بہت سی داد
 
Top