کاشفی

محفلین
چھپایا راز یوں تشنہ لبی کا
سمندر پی گیا پانی ندی کا

ہوا آتی ہے اخلاص و وفا کی
میرے گھر پیڑ ہے پچھلی صدی کا

وہ اپنے گھر میں ہی اب اجنبی ہے
نتیجہ یہ ہوا آوارگی کا

(طاہر فراز - رام پور)
 

کاشفی

محفلین
ذہن کو پہلے یکجا کرنا پڑتا ہے
چلتے ہوئے لمحوں کو ٹھہرنا پڑتا ہے

مدحتِ مولا میں مصرعہ کہنے کے لیئے
فکرِ رسا کو حد سے گزرنا پڑتا ہے

(طاہر فراز)
 

کاشفی

محفلین
اتنا بھی کرم اُن کا کوئی کم تو نہیں ہے
غم دے کہ وہ پوچھے ہیں کوئی غم تو نہیں ہے

(طاہر فراز)
 

طارق شاہ

محفلین

میں آج زد پہ اگر ہُوں، تو خوش گُمان نہ ہو !
چراغ سب کے بُجھیں گے، ہَوا کسی کی نہیں

احمد فراز
 

کاشفی

محفلین
اچھا سلوک ہو تو حمایت کریں گے ہم
ورنہ حضور کھل کے بغاوت کریں گے ہم

(مظہر رضوی - حیدرآباد، دکن)
 

کاشفی

محفلین
اس آگ کو بجھنے دو یوں ہی سست روی سے
پانی سے تو پھیلے گا دھواں اور زیادہ

جس روز میں خود ماں بنی اس روز سے مجھ کو
لگنے لگی اچھی میری ماں اور زیادہ

(نورین طلعت عروبہ)
 

طارق شاہ

محفلین

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حِساب
آج تم یاد بے حساب آئے

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یُوں روز اِنقلاب آئے

فیض احمد فیض
 
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پہ عزت سادات بھی دستار کے ساتھ

اک تو تم خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ

ہم کو اس شہر میں جینے کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ

خوف اتنا ہے تیرے شہر کی گلیوں میں فراز
چھاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ

مجھ کو مطلوب جو بد نامی تری ہوجاتی
تیری تصویر سجا رکھتا میں دیوار کے ساتھ
 

طارق شاہ

محفلین

اِک کیفیّت سُرور کی ہے قُربِ حُسن سے
اب تک وہ عاشقی کا زمانہ نہیں گیا

کم وَلوَلے ہوں کیسے، کہ ہر دم ابھی اُسے
پیشِ نظر خیال میں پانا نہیں گیا

شفیق خلش
 
Top