طارق شاہ

محفلین
جمود
اخترالایمان

تم سے بے رنگیِ ہستی کا گِلہ کرنا تھا

دل پہ انْبار ہے خُوں گشتہ تمنّاؤں کا
آج ٹوُٹے ہُوئے تاروں کا خیال آتا ہے
ایک میلہ ہے پریشان سی اُمّیدوں کا
چند پژمُردہ بہاروں کا خیال آتا ہے
پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایُوسی میں
پُر محن راہ گُزاروں کا خیال آتا ہے

ساقی و بادہ نہیں، جام و لبِ جُو، بھی نہیں
تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں !

اخترالایمان
 

کاشفی

محفلین
دیر میں سمجھے مسلمان تو حرم میں کافر
ہم ان افعال سے دونوں ہی جگہ خوار رہے

(میر مہدی مجروح)
 

کاشفی

محفلین
محمد نور ذاتِ کبریا ہے
خدا سے کم ہے اور سب سے سوا ہے

بجز احمد یہ کس کا مرتبا ہے
کہ ہر اک پیشوا کا پیشوا ہے
(میر مہدی مجروح)
 

طارق شاہ

محفلین

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کِن قرِینوں سے

آشنا آشنا پیام آئے !
اجنبی اجنبی زمِینوں سے

رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زِینوں سے

تُو نے مِژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی !
شہر خالی نہ تھا مکِینوں سے

ادا جعفری
 

طارق شاہ

محفلین


اِنکار میں اِقرار کی بات آ ہی گئی ہے
باتوں میں غمِ یار کی بات آ ہی گئی ہے

آیا ہے کبھی ذکر اگر دار و رسن کا
گیسو و قدِ یار کی بات آ ہی گئی ہے

جب سُرخئ گُلشن کا کبھی ذِکر ہُوا ہے
تیرے لب و رُخسار کی بات آ ہی گئی ہے

ڈھونڈا ہے اگر، زخمِ تمنّا نے مداوا
اِک نرگِسِ بیمار کی بات آ ہی گئی ہے

مل بیٹھے ہیں زِنداں میں اگر شام کو احباب
تیرے در و دیوار کی بات آ ہی گئی ہے

چھیڑا ہے کوئی تلخ فسانہ جو کسی نے
شیرینئ گفتار کی بات آ ہی گئی ہے

مظہر امام
 

طارق شاہ

محفلین

وفورِ شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں
تو حرف حرف کو حُسنِ تمام کرتے ہیں

چمن میں جب سے اُسے سیر کرتے دیکھ لِیا
اُسی ادا سے غزالاں خِرام کرتے ہیں

اب اُس کو یاد نہ ہوگا ہمارا چہرہ بھی
تمام شاعری ہم جس کے نام کرتے ہیں

منظور ہاشمی
 

طارق شاہ

محفلین

بہت خَجَل ہے تِرے درد سے دُعا میری
یہ خوف ہے کہ، نہ سُن لے کہیں خُدا میری

ہُوئی ہے عِشق میں عِزّت پسِ فنا میری
کرامتیں ہیں جو مشہُور جا بجا میری

جِدھر کو اب وہ چَلا ہے، وہی ہے راہِ مُراد
رضائے یار سے، وابستہ ہے رضا میری

چُھپے وہ مجھ سے تو کیا یہ بھی اِک ادا نہ ہُوئی
وہ چاہتے تھے ، نہ دیکھے کوئی ادا میری

کہیں وہ آ کے مِٹا دیں نہ اِنتظار کا لُطف
کہیں قبُول نہ ہوجائے اِلتجا میری

نہ کیوں ہو عِشق میں دعوائے اِمتیاز مُجھے
کہ جورِ حُسن سے منسُوب ہے وفا میری

وہ بِگڑے بیٹھے ہیں اِس پر، کہ ہم کو کیوں چاہا
ہوئی تھی گر تو، یہ ثابت ہُوئی خطا میری

کبھی چُرا کے جو روزن سے بھی تُجھے دیکھوں
تو چور کی جو سزا ہو، وہی سزا میری

وصالِ یار کی منزِل قریب ہے، حسرت
ہُوئی ہے، آرزوئے شوق رہنما میری

حسرت موہانی
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں
میں کیا کر رہا ہوں، وہ کیا کر رہے ہیں

بتوں کے تصوّر میں محفل سجا کر
ہم اس طرح یادِ خُدا کر رہے ہیں

کبھی ہاتھ رکھتے ہیں سینہ پہ میرے
کبھی تیر دل سے جُدا کر رہے ہیں

نمازِ محبت کو بہزادِ مضطر
قضا کر چکے تھے، ادا کر رہے ہیں

بہزاد لکھنوی
 
Top