کاشفی

محفلین
نہ خوش ہو میرے استغفار سے واعظ کہ رندوں کی
زباں نزدیک ہے توبہ سے جب تک دُور ہے شیشہ

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
کلائی ہاتھ کی مڑتی ہے انگڑائی میں جو اس کی
کسی نے شاخ گل میں اس نزاکت کی لچک دیکھی

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
دختر رز کو جو کچھ میں نے کہا مان گئی
جب میں چھیڑا تو کہا اوہی مری جان گئی

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
کر آج شراب کا تماشا ساقی
بہنے لگے میکدے میں دریا ساقی

سب دیکھتے ہوں ترے کرم کا منظر
ہم ہوں، پینا ہو اور جینا ساقی

(ساغر نظامی)
 

کاشفی

محفلین
نہ رکھ نماز سے محروم، دے مجھے ساقی
شراب اتنی کہ میں سجدہ سوے جام کروں

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
اہلِ ایماں سوز کو کہتے ہیں کافر ہوگیا
آہ یارب رازِ دل ان پر بھی ظاہر ہوگیا

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
رُسوا ہوا، خراب ہوا، مبتلا ہوا
وہ کون سی گھڑی تھی کہ تجھ سے جُدا ہوا

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
میں اپنے دل کو ایک مدّت سے بیت اللہ سمجھا تھا
بتوں کو دو مبارکباد، یہ بیت الصنم نکلا

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
مجھ سے مت جی کو لگاؤ کہ نہیں رہنے کا
میں مسافر ہوں کوئی دن کو چلا جاؤں گا

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
اور تو بس نہیں چلتا ہے رقیبوں کا مگر
سوز کے نام کو لکھ لکھ کے جلا دیتے ہیں

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
بلبل کدھر تو پھرتی ہے غافل خبر لے جلد
گل نے لگائی آگ ترے آشیانے میں

(سید محمد میر سوز دہلوی)
 

کاشفی

محفلین
دیکھتے ہی اُسے حاضر ہوئے مرجانے کو
وہی احباب جو یاں آئے تھے سمجھانے کو

(میر شیر علی داور ابن میر علی مظفر خاں)
 

کاشفی

محفلین
ہنس کر مجھے لوگوں میں اشارات نہ کیجے
رسوائی ہو جس بات میں وہ بات نہ کیجے

(میر شیر علی داور ابن میر علی مظفر خاں)
 

طارق شاہ

محفلین
مَحَلکے

تصوّرات کی شمعیں جَلا کے دیکھ تو لوُں
سیاہ خانۂ ہستی سجا کے دیکھ تو لوُں
غمِ حیات پہ آنسو بہا کے دیکھ تو لوُں
تِری نظر سے ذرا دُور جا کے دیکھ تو لوُں

پئے ہُوئے ہُوں مئے غم، سنبھل نہیں سکتا
ابھی تو، ہوش میں دو گام چل نہیں سکتا
ابھی تو، زیست کا عُنواں بدل نہیں سکتا
محبتّوں کو فسانہ بناکے دیکھ تو لوُں

یہ گھر بنا کے گِرا دُوں گا اپنے ہاتھوں سے
دِیے جَلا کے بُجھا دُوں گا اپنے ہاتھوں سے
یہ ساری بزْم اُٹھا دُوں گا اپنے ہاتھوں سے
خیال و خواب کی دُنیا بسا کے دیکھ تو لوُں

سِیاہ و کُہنہ مَحَلکوں سے اُس طرف کوئی
گھنی، دبی ہُوئی پلکوں سے اُس طرف کوئی
پُکارتا ہے دُھندلکوں سے اُس طرف کوئی
یہ دو قدم ہیں، اِنھیں بھی اُٹھا کے دیکھ تو لوُں

غبارِ رہ کے اِشارے سنبھال لیتے ہیں
اُفق کے دُھندلے کِنارے سنبھال لیتے ہیں
سُنا ہے ٹوُٹتے تارے سنبھال لیتے ہیں
بس ایک بار سہی، ڈگمگا کے دیکھ تو لوُں

اخترالایمان
 
Top