طارق شاہ

محفلین

مِرا سینہ ہے مشرق، آفتابِ داغِ ہجراں کا
طلوعِ صُبح محشر، چاک ہے میرے گریباں کا

شیخ امام بخش ناسخ
 

طارق شاہ

محفلین

وہ شوخِ فتنہ انگیز اپنی آنکھوں میں سمایا ہے
کہ اِک گوشہ، ہے صحرائے قیامت جس کے داماں کا

شیخ امام بخش ناسخ
 

طارق شاہ

محفلین

جنونِ بے سروساماں کی بات کون کرے
خِزاں نہ ہو تو بیاباں کی بات کون کرے

گُلاب و نرگِس و ریحاں کی بات کون کرے
جو تم مِلو ، تو گُلِستاں کی بات کون کرے

قابل اجمیری
 

طارق شاہ

محفلین

اِتنے قریب آ کہ نظر بھر کے دیکھ لوں
شاید کہ ، پھر مِلو تو یہ ذوقِ نظر نہ ہو

فیض احمد فیض
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مِری ساقی گری شام ڈھلے

منتظرِ بیٹھے ہیں ہم دونوں، کہ مہتاب اُبھرے
اور تِرا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

چاند نِکلے کسی جانب تِری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا

دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو، کوئی حرف شناسائی کا

ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں !
کوئی وعدہ ، کوئی اقرار مسیحائی کا

فیض احمد فیض
 
کھیت کو بد دعا لگ گئی ہوگئی
یہ جو کالی کپاس دیکھتا ہوں


مجھے نہیں معلوم کہ شاعر کون ہے 1995 میں آل انڈیا ریڈیو پر سنا تھا کہ یہ شعر کسی سلسلہ میں اول نمبر پر آیا ہے۔ شعر یاد رہ گیا۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
کھیت کو بد دعا لگ گئی ہوگئی
یہ جو کالی کپاس دیکھتا ہوں


مجھے نہیں معلوم کہ شاعر کون ہے 1995 میں آل انڈیا ریڈیو پر سنا تھا کہ یہ شعر کسی سلسلہ میں اول نمبر پر آیا ہے۔ شعر یاد رہ گیا۔

وااہ برادرِ محترم! اِس سلسلہ میں درج کرنے کا بہت شکریہ اور بے شک یہ شعر کسی بھی سلسلہ میں اول درجہ کا حقدار ہے ،،، کِسی نے اپنے خیال کے ساتھ کیا خوب انصاف کیا ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
کھیت کو بد دعا لگ گئی ہوگئی
یہ جو کالی کپاس دیکھتا ہوں


مجھے نہیں معلوم کہ شاعر کون ہے 1995 میں آل انڈیا ریڈیو پر سنا تھا کہ یہ شعر کسی سلسلہ میں اول نمبر پر آیا ہے۔ شعر یاد رہ گیا۔
پہلا مصرع بالا لکھے میں صحیح نہیں ، شعر شاہد کچھ یوں ہے !
کھیت کو بد دُعا لگی ہوگی !
یہ جو کالی کپاس دیکھتا ہوں
 

طارق شاہ

محفلین

اپنا تو نہیں یار میں کچھ ، یار ہُوں تیرا
تو جس کی طرف ہووے ، طرفدار ہُوں تیرا

کڑُھنے پہ مِرے، جی نہ کڑُھا ، تیری بَلا سے !
اپنا تو نہیں غم مجھے، غمخوار ہُوں تیرا

تو چاہے نہ چاہے، مجھے کچھ کام نہیں ہے
آزاد ہُوں اِس سے بھی، گرفتار ہُوں تیرا

ہے عشق سے میرے ہی، تِرے حُسن کا شہرہ
میں کچھ نہیں، پر گرمئ بازار ہُوں تیرا

اے درد! مجھے کچھ نہیں اب اور تو آزار
اُس چشم سے کہدینا کہ ، بیمار ہُوں تیرا

خواجہ میر درد
 
Top