طارق شاہ

محفلین


زخمی ہُوں میں اُس ناوکِ دُزدِیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مِرے زخمِ جگر سے

وہ خُلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہے شاخِ ثمردار میں گُل ، پہلے ثمر سے

حاضر ہیں مِرے توسنِ وحشت کے جَلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی ، دامن کو کمر سے

شیخ ابراہیم ذوق
 

شیزان

لائبریرین
عجب اندیشۂ سود و زیاں کے درمیاں ہیں ہم
کہ فردِ جرم غائب ہے مگر تعزیر زندہ ہے

سلیم اتنا سمجھنے ہی میں عُمریں بیت جاتی ہیں
نہ کوئی لفظ مُردہ ہے نہ ہر تحریر زندہ ہے

سلیم کوثر
 

طارق شاہ

محفلین

اے درد پتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمّا حل نہ ہُوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں، یا آپ دلِ بےتاب ہیں ہم


شادعظیم آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مُرغانِ قفس کو پھُولوں نے، اے شاد! یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو، ایسے میں ، ابھی شاداب ہیں ہم


شاد عظیم آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

جِینا وہ کیا، کہ دل میں نہ ہو تیری آرزُو
باقی ہے موت ہی ، دلِ بے مُدّعا کے بعد


مولانا محمدعلی جوہر
 

طارق شاہ

محفلین

جلوَت میں ہُوں تو شاکیِ ہنگامۂ ہجُوم !
خلوَت میں ہُوں ، تو ساتھ ہے دُنیا خیال کی

سیماب اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

بقا ہماری جو پُوچھو تو جوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے ، رہے نہ رہے

چلو جو ہم سے تومل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرۂ شبنم رہے رہے ، نہ رہے

یہی سمجھ لو ہمیں تم کہ اِک مسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے ، رہے نہ رہے

نظیراکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا

جو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے مارا

جگر مراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

دل میں باقی نہیں وہ جوشِ جنُوں ہی، ورنہ
دامنوں کی نہ کمی ہے ، نہ گریبانوں کی

اُس نے جو آگ لگا دی وہ فروزاں ہی رہی
بُجھ گئی آگ لگائی ہُوئی ارمانوں کی

جگر مراد آبادی
 
Top