شیزان

لائبریرین
یہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ملتی
بس ایک رشتۂ آب و ہوا غنیمت ہے

تمام راہیں ہوئیں گردِ ممکنات میں گم
مسافروں کو ترا نقشِ پا غنیمت ہے

سلیم کوثر
 

شیزان

لائبریرین
کیسے کیسے ہجر جھیلے ہیں در و دیوار نے
پھر بھی قائم ہے حصارِ جسم و جاں اپنی جگہ

داستاں گو قتل ہوتا ہے کہانی میں سلیم
تب جنم لیتی ہے کوئی داستاں اپنی جگہ

سلیم کوثر
 

شیزان

لائبریرین
وہ کوئی زہر کا پیالہ ہو یا صلیب کی رسم
ہوئی جہاں سے بھی یہ ابتدا، غنیمت ہے

سلیم اگر کوئی عینی گواہ مل جائے
ترے علاوہ یا میرے سوا، غنیمت ہے

سلیم کوثر
 

طارق شاہ

محفلین

اب بھی ہمارے پاؤں سے لِپٹی ہُوئی ہے عُمْر
مرنے کا انتظار ہے، جینا ضرُور ہے

یہ کیا کہ ایک عُمْر تُجھے ڈھوُنڈنے کے بعد
تُجھ سے مِلے ہیں اور بچھڑنا ضرُور ہے

اور وہ ، جو دِل نواز تھا! وہ تو چلا گیا
اِک سوگوار درد سے رشتہ ضرُور ہے

ناموں کا اِک ہجُوم سہی میرے آس پاس
دِل سُن کے ایک نام ، دھڑکتا ضرُور ہے

ساقی فاروقی
 

شیزان

لائبریرین
تجھے دیکھیں کہ تیری آرزو کرنا ضروری ہے
نگاہ و دل کو اب کے رُوبرو کرنا ضروری ہے

کہیں لازم تو ہوتا ہے گریباں چاک کر لینا
کہیں چاکِ گریباں کو رفُو کرنا ضروری ہے

سلیم کوثر
 

طارق شاہ

محفلین

ناصحا ! دل میں تُو اِتنا تو سمجھ اپنے ، کہ ہم
لاکھ ناداں ہُوئے ، کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے ؟

مومن خاں مومن
 

طارق شاہ

محفلین

کرکے زخمی مجھے نادم ہوں، یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو، بے وقت پشیماں ہوں گے

مومن خاں مومن
 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین
یہ عہد عجب عہدِ کم و بیش ہے جاناں
خود تیری گواہی ترے ہم راز نہ دیں گے

تُو بھی ہمیں بن دیکھے گزر جائے گا اک دن
کچھ سوچ کے ہم بھی تجھے آواز نہ دیں گے

سلیم کوثر
 

طارق شاہ

محفلین

داغِ دل نِکلیں گے تُربت سے مِری ، جُوں لالہ !
یہ وہ اَخگر نہیں ، جو خاک میں پنہاں ہوں گے

مومن خاں مومن
 

شیزان

لائبریرین
اِک صدا کی ویرانی راستہ بتاتی تھی
اور اپنے چاروں سمت خواہشوں کے پہرے تھے

اب سلیم اکیلے ہو ورنہ عُمر بھر تم تو
دوستی میں اندھے تھے، دشمنی میں بہرے تھے

سلیم کوثر
 

شیزان

لائبریرین
حیرتِ دید لئے حلقۂ خُوشبو سے اُٹھا
میں اُجالے سے اُٹھا یا ترے پہلُو سے اُٹھا

صُبح آغاز تری جُنبشِ مژگاں سے ہوئی
لشکرِ شام ترے خیمۂ ابرُو سے اُٹھا

گریۂ نیم شبی دستِ دُعا تک آیا
اور تری یاد کا شعلہ مرے آنسُو سے اُٹھا

سلیم کوثر
 

شیزان

لائبریرین
جُنوں آثار شہروں سے ابھی رانجھا نہیں لَوٹا
سَمے کی ٹوٹتی پگڈنڈیوں میں ہیر زندہ ہے

ستم ایجاد لمحوں نے لبوں کو سِی دیا ، لیکن
ابھی دستِ دُعا میں حلقۂ تاثیر زندہ ہے

سلیم کوثر
 
Top