مغزل

محفلین
عزیز قارئین:۔
کچھ دوستوں کا اعتراض ہے بلاگ آپ خود لکھیں ، ادھر ادھر سے نہ لے کر لگائیں ، عموماً ایسا ہوجا تاہے جب آپ خالی الذہن ہوجائیں ، تو کسی دوسرے کے کلام یا کام کو خود پر فوقیت دینا ہی عین حق ہوتا ہے ، اطہر نفیس کے حوالے سے سیکڑوں اشعار سنے اور تذکرے مہینوں جاری رہے ، سو بیٹھے بٹھائے میری ذہن میں خیال آیا کہ کیوں ان پر لکھا جائے ، اس سے پہلے میں نے تلاش کی تو مجھے وائس آف امریکہ پر پٹنہ بھارت کے رضوان صاحب کا مضمون مل گیا ، اب چونکہ مجھے دسترس نہ رہی ہے کہ میں اس سے اچھا کچھ لکھ پاتا سو یہ مضمون شکریہ کے ساتھ یہاں شامل کیا، اردو سیارہ کے منتظمین چاہیں تو مجھے اپنی فہرست سے خارج کرسکتے ہیں کہ کما ل یہی ہے کہ کسی کے کمال کو کمال تسلیم کیا جائے۔
والسلام

منتخب مضمون:

اردو شاعری کا شہابِ ثاقب ۔۔۔ اطہر نفیس
 

مغزل

محفلین
اردو میں انشائیہ کی موت کا سبب ہم ،، یا ۔۔۔ ؟؟؟

فارسی میں اسپ ہے ، اردو میں گھوڑا ، سانپ کا

قارئین خاصے عرصے سے شہر کے حلقوں میں ایک شورمچا ہے کہ انشائیہ نگاری کا فن اپنی موت مرنے لگا ہے تو صاحبو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس کارِ خیر میں حصہ ملایا جائے ،کراچی کے ادبی حلقوں میں الحسن کافی ہاؤس ، عنابی ہوٹل ، زمیندار ہوٹل ، کیفے رحمت، گلابی ہوٹل ، حبیب ریسٹو رینٹ کا تذکرہ شامل نہ ہوتو لگتا ہی نہیں ہے کہ کراچی کے ادبی حلقوں کی گفتگو ہے۔اسی طرح ایک دن بزرگ شاعرریاض سنبھلی ایک تازہ شعر کہہ کر لائے جس میں شمع ، ہوا کے وزن پر باندھا گیا تھا ، مدبررضوی نے کہا صاحب شمع اور ہوا کے وزن پر ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے ، کسی نے کہا حضور یہ تو ٹھیک ہے کہ ” فارسی میں اسپ ہے ، اردو میں گھوڑا “ مگر یہ ” سانپ کا “ ؟؟ ۔
مزید پڑھیں>>>
 

مغزل

محفلین
ماں ایسے رشتے کے ساتھ ڈرامہ
ناطقہ پر تازہ اظہاریہ

عزیز قارئین ، مذکورہ واقعہ ایک کہاوت ہے جو ماضی کے گم کردہ اوراق سے ایک دوست نے ہمیں ’’ ماں کے عالمی دن ‘‘ پر ارسال کی، من حیث القوم ہماری بدنصیبی یہ رہی کہ ہم مجموعی غلامانہ ذہن کے مالک ہیں ،فرنگی معاشرے میں مادی دوڑ میں انسان کے معاشرتی ، سماجی اور اخلاقی رویوں میں‌اس قدر بڑی دیواریں کھڑی ہوگئی کہ مادی تگ و دو کی دوڑ میں بحیثیتِ معاشرتی حیوان اپنی جبلت کے مطابق روحانی سکون رشتوں میں تلاش کرنا پڑا، کائناتی کلیے کے تحت سب سے زیادہ قریبی تعلق تخلیق کرنے والا کا ہوتا ہے ، جس کے لمس سے زندگی لہروں کی طرح رگوں میں دوڑتی ہے اور یہ رشتہ ماں کا ہے ۔مادہ پرستی کے جھمیلے انسان کو ماں کی طرف جانے سے محروم کرنے لگے تو انہیں ’’ منانے ‘‘ کو ماں کا دن طے کرنا پڑا یوں ماں ایسی ہستی کو تکلف کے خانے میں قید کردیا گیا، مادہ پرستی کی دوڑ میں سرشار قومیں یہ بھول جاتی ہیں کہ ان کی اپنی روایات و اقدار کیاہیں چند مالدار ممالک نے دنیا کو کائناتی گاؤں تسلیم کرنے کا نعرہ بلند کیا تو تہذیبوں میں ٹکراؤ اور طرح بے طرح کی خرابیوں نے جنم لیا سو ہم بھی پستی کے مارے غلامانہ ذہنیت کے عکاس غیروں کی تقلید میں صرف یہ دن منا کر سمجھتے ہیں کہ ماں سے محبت یا اس رشتے کا حق ادا کردیا ہے حالانکہ ماں یا یہ رشتہ اس تکلف کا محتاج نہیں، جسے قدرتی تفاخر حاصل ہو اسے محتاجی نہیں ۔

مزید پڑھیں
 
Top