ظہیر احمد

  1. ظہیراحمدظہیر

    قطبی رات ۔ ایک نظم

    سالوں پہلے مشی گن کے انتہائی شمالی اور سرد علاقے میں سرما کی چند راتیں ایک کیبن میں گزارنے کا اتفاق ہوا ۔ قطبی روشنیاں دیکھنے اور ویرانے میں کچھ دن گزارنے کا شوق وہاں لے گیا تھا ۔ شمالی مشی گن اور شمالی وسکانسن کا سرما شدید اور طویل ہوتا ہے ۔ یہ نظم اس قیام کی یادگار ہے ۔ اس میں ایک عروضی...
  2. ظہیراحمدظہیر

    راز درپردۂ دستار و قبا جانتی ہے

    راز در پردۂ دستار و قبا جانتی ہے کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے نشۂ عشق مجھے اور ذرا کر مدہوش بے خودی میری ابھی میرا پتہ جانتی ہے...
  3. ظہیراحمدظہیر

    ہم ترا ذکرِ طرحدار لکھا کرتے تھے

    ہم ترا ذکرِ طرحدار لکھا کرتے تھے کوئی روکے تو بتکرار لکھا کرتے تھے پندِ ناصح جو کہیں لکھا نظر آ جائے نام تیرا وہیں سو بار لکھا کرتے تھے محضرِ جرمِ وفا پر بخطِ رسم ِ جلی برملا کلمۂ اقرار لکھا کرتے تھے فردِ تکفیر ہمیں ملتی تھی جس کاغذ پر ہم اُسی پر ترے اشعار لکھا کرتے تھے ہم نے دیکھا ہی نہ...
  4. ظہیراحمدظہیر

    نصیب ہو جو کبھی اُس کی آرزو کرنا

    نصیب ہو جو کبھی اُس کی آرزو کرنا متاعِ دیدہ و دل صرفِ جستجو کرنا گمان تک بھی نہ گزرے کہ غیر شاہد ہے یہ جس کا سجدہ ہے بس اُس کے روبرو کرنا ملیں گے حرفِ عبادت کو نت نئے مفہوم کبھی تم اُس سے اکیلے میں گفتگو کرنا ہزار رہزنِ ایمان سے ملے گی نجات کوئی سفر ہو عقیدت کا قبلہ رو کرنا وہ ذاتِ...
  5. ظہیراحمدظہیر

    یہ مرا غم کسی صورت نہیں گھٹنے والا

    یہ مرا غم کسی صورت نہیں گھٹنے والا ناخدا تھا مری کشتی کو اُلٹنے والا لذتِ درد کا موسم بھی کبھی بدلا ہے؟ ابرِ غم سر سے یہ برسوں نہیں چھَٹنے والا چھوڑ کر دیکھ تو احساس کا دامن اے دل غم رہے گا نہ کوئی جاں سے لپٹنے والا راہِ تسکین پہ لے آئی تمنا مجھ کو زندگی بھر بھی سفر اب نہیں کٹنے...
  6. ظہیراحمدظہیر

    مسافرانِ محبت ہیں ، سنگِ راہ نہیں

    یہ غزل سانحہ گیارہ ستمبر کے بعد کے چند سالوں میں رونما ہونے والے واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی تھی ۔ کسی کو روک لیں ہم ، ایسے کم نگاہ نہیں مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں ۔ق۔ ستم تو یہ ہےکہ دنیا تمہارے زیرِ ستم تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں کھلا ہے کون سا...
  7. ظہیراحمدظہیر

    سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر

    احبابِ کرام ! دس پندرہ پرانی غزلیں اور نظمیں اور نکل آئی ہیں اور ٹائپ بھی ہوگئی ہیں ۔ ان میں سےکچھ چنیدہ غزلیں اور نظمیں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔ سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر گھر سے نکلے تو چمن زار نہیں آیا پھر پھر مجھے خاکِ جنوں لے کے پھری دشت بہ دشت...
  8. ظہیراحمدظہیر

    پینسل سے پکسل تک

    اس مراسلے کا مقصد آپ دوستوں کو یہ اطلاع دینا ہے کہ یہ کشتۂ آزار ، بندۂ بیکار ،گنہگار شاعری کے علاوہ کئی دوسرے عارضوں میں بھی مبتلا ہے۔ عرصہ پہلے احمد بھائی سے مراسلت کے دوران کہیں غلطی سے لکھ دیا کہ ہمیں آرٹ وغیرہ سے بھی کچھ شغف ہے ۔ نتیجتاً ان کی طرف سے اس ’’ آرٹ‘‘ کی نمائش کی...
  9. ظہیراحمدظہیر

    ہوش و خرد ، غرورِ تمنا گنوا کے ہم

    ہوش و خرد ، غرورِ تمنا گنوا کے ہم پہنچے ترے حضور میں کیا کیا لٹا کے ہم کوہِ گرانِ عشق تری رفعتوں کی خیر! دامن میں تیرے آگئے تیشہ گنوا کے ہم ہم پیش کیا کریں اُسے کشکول کے سوا وہ ذات بے نیاز ہے ، بھوکے سدا کے ہم نادم ہیں کر کے چہرۂ قرطاس کو سیاہ...
  10. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: جل بجھے ہم تو ہوا ایک زمانہ واقف

    قطعہ جل بجھے ہم تو ہوا ایک زمانہ واقف واقعہ اپنے بکھرنے کا سبھی نے دیکھا لوگ پتھر تھے یا پھر ہم تھے شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرنے سے پہلے نہ کسی نے دیکھا ظہیر احمد ۔۔۔۔ ۲۰۰۵
  11. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: حوصلہ قافلے والوں کا بڑھاتے رہنا

    قطعہ حوصلہ قافلے والوں کا بڑھاتے رہنا منزلیں دور ہیں قدموں کو ہلاتےرہنا میں حدی خواں ہوں مرا کام صدائیں کرنا میری آواز میں آواز ملاتے رہنا ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔ تاریخ نامعلوم
  12. ظہیراحمدظہیر

    میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا

    میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا کیا کہوں میں ، دشمنوں میں آشنا میرا بھی تھا اجنبی بیگانہ تیری آشنائی کر گئی اک زمانہ تھا ، زمانہ آشنا میرا بھی تھا ہاں یہی کوئے خرابی ، ہاں یہی دہلیزِ عشق لاپتہ ہونے سے پہلے یہ پتہ میرا بھی تھا ریزہ ہائے خوابِ الفت چننے والے دیکھنا! اِن شکستہ آئنوں...
  13. ظہیراحمدظہیر

    موجِ شرابِ عشق پہ ڈولے ہوئے سخن

    موجِ شرابِ عشق پہ ڈولے ہوئے سخن اک عالمِ نشاط میں بولے ہوئے سخن جیسے اتر رہے ہوں دلِ تشنہ کام پر تسنیم و زنجبیل میں گھولے ہوئے سخن جیسے پروئیں تارِ شنیدن میں درِّ ناب لب ہائے لعل گوں سے وہ رولے ہوئے سخن آؤ سناؤں محفلِ شیریں سخن کی بات برہم ہوئے مزاج تو شعلے ہوئے سخن ہوتے نہیں ظہیرؔ کبھی...
  14. ظہیراحمدظہیر

    اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا

    اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا خاک تھا میں ، پھول کے انداز میں رکھا گیا حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے خاکدانِ سیم و زر آغاز میں رکھا گیا -ق- اک صلائے عام تھی دنیا مگر میرے لئے کیا تکلف دعوتِ شیراز میں رکھا گیا ایک خوابِ آسماں دے کر میانِ آب و گِل بال و پر بستہ مجھے پرواز...
  15. ظہیراحمدظہیر

    وہ کلاہِ کج ، وہ قبائے زر ،سبھی کچھ اُتار چلا گیا

    وہ کلاہِ کج ، وہ قبائے زر ،سبھی کچھ اُتار چلا گیا ترے در سے آئی صدا مجھے ، میں دِوانہ وار چلا گیا کسے ہوش تھا کہ رفو کرے یہ دریدہ دامنِ آرزو میں پہن کے جامۂ بیخودی سرِ کوئے یار چلا گیا مری تیزگامئ شوق نے وہ اُڑائی گرد کہ راستہ جو کھلا تھا میری نگاہ پر وہ پسِ غبار چلا گیا نہ غرورِ عالمِ آگہی ،...
  16. ظہیراحمدظہیر

    ترکِ وطن

    ترکِ وطن مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر ہر فریب ِتازہ کومسکرا کے دیکھا تھا دل کو عہدِ رفتہ کےطور ابھی نہیں بھولے چشم ِخوش گما ں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی خواب دیکھنا لیکن ہم...
  17. ظہیراحمدظہیر

    بے غرض کرتے رہو کام محبت والے

    غزل بے غرض کرتے رہو کام محبت والے خود محبت کا ہیں انعام محبت والے لفظ پھولوں کی طرح چن کر اُسے دان کرو اُس پہ جچتے ہیں سبھی نام محبت والے خود کو بیچا تو نہیں میں نے مگر سوچوں گا وہ لگائےتو سہی دام محبت والے ۔ دل کی اوطاق میں چوپال جمی رہتی ہے ملنے آتے ہیں سر ِ شام محبت والے غم کسی...
  18. ظہیراحمدظہیر

    بھوکا بُرا لگا ، کبھی روٹی بری لگی

    غزل بازی انا کی ، بھوک سے کیسی بری لگی بھوکا بُرا لگا ، کبھی روٹی بری لگی خانہ بدوشیوں کے یہ دکھ بھی عجیب ہیں چوکھٹ پر اپنے نام کی تختی بری لگی روشن دریچے کر گئے کچھ اور بھی اداس صحرا مزاج آ نکھ کو بستی بری لگی دشمن کی ناخدائی گوارا نہ تھی ہمیں غرقاب ہوتے ہوتے بھی...
  19. ظہیراحمدظہیر

    مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں

    غزل مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں ہم لوگ وفاؤں کے تضادات میں گم ہیں رستوں میں نہیں سات سمندر کی یہ دوری یہ سات سمندر تو مری ذات میں گم ہیں ہم لے کے کہاں جائیں محبت کا سوال اب دل والے بھی اپنے ہی مفادات میں گم ہیں کشکولِ انا کو بھی چٹختا کوئی دیکھے سب اہلِ کرم لذتِ خیرات میں گم...
  20. ظہیراحمدظہیر

    اپنی تو ہجرتوں کے مقدر عجیب ہیں

    غزل اپنی تو ہجرتوں کے مقدر عجیب ہیں اپنے ہی شہر میں ہیں نہ غربت نصیب ہیں اب اعتبار کس کا کریں الجھنوں کے بیچ باتیں ہیں دوستانہ سی لہجے رقیب ہیں چارہ گروں کے طرزِ جراحت کا شکریہ ! آزار اب مری رگِ جاں کے قریب ہیں مٹی سے تیری دور ہیں لیکن ہیں تجھ سے ہم ہم بھی تو اے وطن ترے شاعر ادیب ہیں...
Top