اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔


اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے
اک شعر ہو رہا ہے مصرعے بدل بدل کے

پُرپیچ راستہ ہے ، سامان ہلکا رکھنا
تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے

تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر
پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے

تعبیر کیا ملے گی اُن کو بھلا سحر سے
گزری ہے رات جن کی سپنے بدل بدل کے

بازیگری سے پُر ہے سوداگروں کی دنیا
ممکن ہے ہر تماشہ ہندسے بدل بدل کے

آئینۂ طلسم ِ ایوان ِ اختیارات !
اک شخص دیکھتا ہے چہرے بدل بدل کے

تاریخ بھی ہماری لکھی ظہیر اُسی نے
لوگوں کو جس نے بانٹا نقشے بدل بدل کے


ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۸
 
یوں تو پوری غزل ہی لاجواب ہے۔ مگر ان اشعار کی تو کیا ہی بات ہے۔ :)

اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے
اک شعر ہو رہا ہے مصرعے بدل بدل کے

پُرپیچ راستہ ہے ، سامان ہلکا رکھنا
تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے

تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر
پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے

تعبیر کیا ملے گی اُن کو بھلا سحر سے
گزری ہے رات جن کی سپنے بدل بدل کے

بازیگری سے پُر ہے سوداگروں کی دنیا
ممکن ہے ہر تماشہ ہندسے بدل بدل کے

آئینۂ طلسم ِ ایوان ِ اختیارات !
اک شخص دیکھتا ہے چہرے بدل بدل

تاریخ بھی ہماری لکھی ظہیر اُسی نے
لوگوں کو جس نے بانٹا نقشے بدل بدل کے
 

سین خے

محفلین
پُرپیچ راستہ ہے ، سامان ہلکا رکھنا
تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے

تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر
پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے

تعبیر کیا ملے گی اُن کو بھلا سحر سے
گزری ہے رات جن کی سپنے بدل بدل کے

بازیگری سے پُر ہے سوداگروں کی دنیا
ممکن ہے ہر تماشہ ہندسے بدل بدل کے

تاریخ بھی ہماری لکھی ظہیر اُسی نے
لوگوں کو جس نے بانٹا نقشے بدل بدل کے


بہت ہی خوب! لاجواب :)
 
Top