مسافرانِ محبت ہیں ، سنگِ راہ نہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

یہ غزل سانحہ گیارہ ستمبر کے بعد کے چند سالوں میں رونما ہونے والے واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی تھی ۔​


کسی کو روک لیں ہم ، ایسے کم نگاہ نہیں
مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں

۔ق۔
ستم تو یہ ہےکہ دنیا تمہارے زیرِ ستم
تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں

کھلا ہے کون سا رستہ سپاہِ جبر سے آج
بچا ہے کون سا قریہ جو رزم گاہ نہیں ؟

متاع ِ ہستی کدھر رکھئے اب بجز مقتل
کسی طرف بھی کوئی گوشہٴ پناہ نہیں

حلیف بیچ گئے مجھ کو اپنی جاں کے عوض
مرے بچاوٴ کی باقی کوئی بھی راہ نہیں

۔

کھلے ہیں چند شگوفے مثالِ دستِ دعا
یہ دشتِ بے ثمر اتنا بھی بے گیاہ نہیں

غبارِ کشتہٴ مظلوم عرش چُھولے گا
نصیبِ فرش نہ ہوگا ، یہ گردِ راہ نہیں

اگر ظہیرؔ ہو شانے پر اپنے دستِ حبیب
عدو سے ہاتھ ملانا کوئی گناہ نہیں


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴​
 
کسی کو روک لیں ہم ، ایسے کم نگاہ نہیں
مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں

ستم تو یہ ہےکہ دنیا تمہارے زیرِ ستم
تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں

حلیف بیچ گئے مجھ کو اپنی جاں کے عوض
مرے بچاوٴ کی باقی کوئی بھی راہ نہیں

کھلے ہیں چند شگوفے مثالِ دستِ دعا
یہ دشتِ بے ثمر اتنا بھی بے گیاہ نہیں

لاجواب
 
اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
غزل میں چونکہ ہر شعر کا الگ مضمون ہوتا ہے، اس لیے جب کسی بات کو بیان کرنے میں ایک سے زیادہ اشعار لکھنے پڑیں تو وہ قطعہ کہلاتے ہیں اور ان کی نشاندہی کے لیے ق کی علامت استعمال ہوتی ہے کہ اگلے اشعار ایک ہی مضمون کو مکمل کر ہے ہیں۔ نیچے جہاں تک ختمہ کی علامت ہے۔
 
غزل میں چونکہ ہر شعر کا الگ مضمون ہوتا ہے، اس لیے جب کسی بات کو بیان کرنے میں ایک سے زیادہ اشعار لکھنے پڑیں تو وہ قطعہ کہلاتے ہیں اور ان کی نشاندہی کے لیے ق کی علامت استعمال ہوتی ہے کہ اگلے اشعار ایک ہی مضمون کو مکمل کر ہے ہیں۔ نیچے جہاں تک ختمہ کی علامت ہے۔
آپ کا بہت شکریہ،
یہ ق کی نشاندہی اکثر نظروں سے گزارتی تھی مگر معلومات کی کمی کی وجہ علم نہیں تھا۔
 
Top