ظہیر احمد

  1. ظہیراحمدظہیر

    چراغِ شام جلا ہے کہ د ل جلا کوئی

    ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آج مختلف کاغذوں سے صفحہء ویب پر منتقل کررہا ہوں ۔ احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔ گر قبول افتد ۔۔۔ غزل چراغِ شام جلا ہے کہ د ل جلا کوئی حصارِ ضبطِ فغاں سے نکل چلا کوئی نہ کوئے یار میں آوارہ کوئی دیوانہ نہ بزمِ یار میں باقی ہے منچلا کوئی بدل گیا ہے سراسر مزاجِ...
  2. ظہیراحمدظہیر

    ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا

    ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔ ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا! وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا مکمل ہوا دائرہ زندگی کا یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی...
  3. ظہیراحمدظہیر

    مرہموں کی آس میں

    احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔ مرہموں کی آس میں ٭٭٭ زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط رہ گئی...
  4. ظہیراحمدظہیر

    نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے

    نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے یہ کار...
  5. ظہیراحمدظہیر

    دوستی گردش کی میرے ساتھ گہری ہوگئی

    دوستی گردش کی میرے ساتھ گہری ہوگئی دل تھما تو گردشِ حالات گہری ہو گئی کیسے اندازہ لگاتا اپنی گہرائی کا میں اپنی تہہ تک جب بھی پہنچا ذات گہری ہو گئی زندگی نے ہونٹ کھولے لفظ سادہ سے کہے تجربے نے آنکھ کھولی بات گہری ہو گئی چاندنی کی آس میں ہم دیر تک بیٹھے رہے ڈھونڈنے نکلے دیا جب رات...
  6. ظہیراحمدظہیر

    زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے

    زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہوگئے جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہوگئے نکلے تھے ہم جزیرۂ زر کی تلاش میں ساحل کی ریت چھوڑ کے ساگر کے ہوگئے کچھ ایسا رائگانیٔ دستک کا خوف تھا پہلا جو در کھلا ہم اُسی در کے ہوگئے میرے ستم گروں کا...
  7. ظہیراحمدظہیر

    تازہ غزل : دیارِ شوق کے سب منظروں سے اونچا ہے

    دیارِ شوق کے سب منظروں سے اونچا ہے یہ سنگِ در ترا سار ےگھروں سے اونچا ہے مقامِ عجز کو بخشی گئی ہے رفعتِ خاص جو سر خمیدہ ہے وہ ہمسروں سے اونچا ہے فرازِ طور کی خواہش نہ کر ابھی اے عشق! یہ آسمان ابھی تیرے پروں سے اونچا ہے خدا مدد! کہ یہ شیطانِ نفسِ امّارہ مرے اُچھالے ہوئے کنکروں سے اونچا...
  8. ظہیراحمدظہیر

    کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے

    احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل ڈھونڈ نکالی ہے ۔ شاید کوئی کام کا شعر ہو ۔ آپ کے ذوقِ لطیف کی نذر کرتا ہوں ۔( اشعارِ قدیمہ کی مزید کھدائی جاری ہے ۔ دیکھئے اور کیا کیا برآمد ہوتا ہے ۔ویسے لگتا ہے کہ اب زیادہ کچھ نہیں رہ گیا ۔ :):):))
  9. ظہیراحمدظہیر

    شعر میرا نکھر گیا ہوگا

    ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اُن لبوں تک اگر گیا ہوگا شعر میرا نکھر گیا ہوگا ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی میری حالت سے ڈر گیا ہوگا اعتباراُس کے دل سے دنیا کا جانے کس بات پر گیا ہوگا؟ زہر پینے سے کون مرتا ہے کوئی غم کام کرگیا ہوگا پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے کوئی زنجیر کر گیا ہوگا برگ...
  10. ظہیراحمدظہیر

    ازراہِ دلبری ہمیں آنے دو اپنے پاس

    احبابِ کرام ، اب کھُرچن کی باری آگئی ہے ۔ امید ہے کہ جہاں آپ نے اتنا کچھ برداشت کیا وہاں یہ تلچھٹ بھی گوارا ہوگی ۔ ازراہِ دلبری ہمیں آنے دو اپنے پاس کچھ دیر کو سہی ہمیں آنے دو اپنے پاس رسموں کے زَر محل میں مقید ہو دیر سے در کھولو اب کوئی ہمیں آنے دواپنے پاس احساس کے ڈگر سے اُتارو خیال...
  11. ظہیراحمدظہیر

    آرزوؤں کا نشانہ ہوگیا

    آرزوؤں کا نشانہ ہوگیا دل مرا آخر دوانہ ہوگیا رہ گئی تھی اک حقیقت آخری عشق بھی آخر فسانہ ہوگیا خواب سے نکلا تو کیا دیکھا کہ وہ خواب ہی میرا پرانا ہو گیا آئنہ چہرے مقابل ہی نہیں خود کو دیکھے اک زمانہ ہوگیا بجھ گیا ہے دل سرائے کا دیا کارواں شاید روانہ ہوگیا راکھ ہوکر ہی نہیں دیتا...
  12. ظہیراحمدظہیر

    ہجراں میں دربدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد

    احبابِ محفل ! اب مرے توشۂ سخن میں چند آخری غزلیں ہی رہ گئی ہیں ۔ انہیں بھی جلد ی سے آپ کی بصارتوں کی نذر کرکے اس کام سے فارغ ہوا چاہتا ہوں جو تقریباً دو سال قبل شروع کیا تھا ۔ ایک بہت ہی پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ ہجراں میں دربدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد دیدی گئی زمین ہمیں جنّتوں کے...
  13. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: وہاں اک موجِ بے حس ہے کہ آنکھیں نم نہیں کرتی

    قطعہ وہاں اک موجِ بے حس ہے کہ آنکھیں نم نہیں کرتی یہاں آبِ ندامت میں جبینیں ڈوب جاتی ہیں یہ موجِ بے حسی بن کر سُونامی جان لے لے گی سفینے برطرف اِس میں زمینیں ڈوب جاتی ہیں ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۸
  14. ظہیراحمدظہیر

    مکان اور مکین

    مکان اور مکین سہما ہوا ہے کمرے میں برسوں کا انتظار جالے ہیں فرقتوں کے کواڑوں کے بیچ میں اک شخص ٹوٹ کر ہوا کچھ اور پُر بہار اُگتے ہوں جیسے پھول دراڑوں کے بیچ میں ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔ مئی ۲۰۰۳
  15. ظہیراحمدظہیر

    رنگ شفق سے لے کرجیسے رُخ پہ مَلی ہے شام

    صاحبو! جب زندگی کا دن ڈھلنے پر آجائے اور شام کے رنگ ہر طرف پھیلنے لگیں تو یکایک ہر احساسِ زیاں کچھ اور شدت سے چبھنے لگتا ہے ۔ ایسے میں اگر انسان پلٹ کر دیکھنے کے بجائے آگے دیکھے اور اپنے ہمسفر اور ہمقدم کی نعمت کا اعتراف کرے تو ڈھارس بندھتی ہے ۔ دل کچھ سنبھلنے لگتا ہے ۔ میں بھی اب شام کی...
  16. ظہیراحمدظہیر

    اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے

    احبابِ کرام ! ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے اک شعر ہو رہا ہے مصرعے بدل بدل کے پُرپیچ راستہ ہے ، سامان ہلکا رکھنا تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے تعبیر کیا ملے گی اُن کو بھلا...
  17. ظہیراحمدظہیر

    نہ ملے تم ، تو ملا کوئی تمہارے جیسا

    ایک بہت ہی پرانی غزل سرکلر فائل سے براہِ راست آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے ۔ شاید آپ کو پسند آئے ۔ نہ ملے تم ، تو ملا کوئی تمہارے جیسا فائدہ عشق میں دیکھا ہے خسارے جیسا موج اڑاتی ہوئی مخمور سمندر آنکھیں ڈھونڈتی رہ گئیں اک شخص کنارے جیسا عشق حیراں ہے ابھی پہلی نظر کے مانند حسن ابھی تک...
  18. ظہیراحمدظہیر

    اپنی مٹی کو مقدر کا ستارہ کر لو

    احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی غزل سرکلر فائل سے آپ کی نذر! :) اِس کے ہر ذرّے سے پیمان دوبارہ کر لو اپنی مٹی کو مقدر کا ستارہ کر لو برف سی جمنے لگی دل پہ نئے موسم کی ہجر کی آنچ کو بھڑکا کے شرارہ کر لو صحن بھر چاندنی کب راہ نوردوں کا نصیب ! آنکھ میں عکس ِ قمر بھر کے گزارہ کر لو...
  19. ظہیراحمدظہیر

    پہاڑ ، دشت ، سمندر ٹھکانے دریا کے

    چھ سات سال پرانی ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میں تو اسے سرکلر فائل میں ڈال چکا تھا لیکن برادرم محمد تابش صدیقی کی فرمائش اور ہمت افزائی پر یہاں لگارہا ہوں ۔ یہ غزل اس دور کی ہے جب میں نے مختلف مظاہر فطرت مثلاً ہوا ، بادل، پانی وغیرہ کو ردیف بنا کر کچھ غزلیں لکھی تھیں ۔ شاید کوئی کام کا شعر نکل آئے...
  20. ظہیراحمدظہیر

    وہ ایک شخص کہ سب جاچکے تو یاد آیا

    احبابِ کرام ! آپ کو مژدہو کہ بس اب ہمارے پلندے میں کچھ ہی غزلیں باقی رہ گئی ہیں ۔ جیسے ہی موقع ملتا جائے گا یہاں لگاتا رہوں گا ۔ ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ وہ ایک شخص کہ سب جاچکے تو یاد آیا کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا مقابلے پر اندھیرا نہیں ہوا بھی ہے کئی چراغ یکایک بجھے تو...
Top