urdu poetry

  1. ظ

    کیا ٹوٹا ہے اندر اندر ، کیوں چہرہ کُملایا ہے

    کیا ٹوٹا ہے اندر اندر ، کیوں چہرہ کُملایا ہے تنہا تنہا رونے والوں ، کون تمہیں یاد آیا ہے چپکے چپکے سُلگ رہے تھے ، یاد میں ان کی دیوانے ایک تارے نے ٹُوٹ کے یارو ! ، کیا اُن کو سمجھایا ہے رنگ برنگی اس محفل میں ، تُم کیوں اتنے چُپ چاپ ہو بھول بھی جاؤ پاگل لوگو ! ، کیا کھویا ، کیا پایا...
  2. ظ

    یوں تو جاتے میں نے اسے ، روکا بھی نہیں

    یوں تو جاتے میں نے اسے ، روکا بھی نہیں پیار اس سے نہ رہا ہو میرا ، ایسا بھی نہیں مانگ لیتا محبت بھی ، میں بھکاری بن کر درد سینے میں بہت تھا مگر ، اتنا بھی نہیں‌ منتظر میں‌ نہ تھا ، کسی شام اس کا اور وعدے پہ شخص وہ کبھی ، آیا بھی نہیں اب اس کی بھی شہزاد ، شکایت ہے یہی پیار تو...
  3. فرخ منظور

    احسان دانش يوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جيسے - احسان دانش

    يوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جيسے ساتھ چل موج صبا ہو جيسے لوگ يوں ديكھ كر ہنس ديتے ہيں تو مجھے بھول گيا ہو جيسے موت بھي آئي تو اس ناز كے ساتھ مجھ پہ احسان كيا ہو جيسے ہچكياں رات كو آتي ہي گئيں تو نے پھر ياد كيا ہو جيسے ايسے انجان بنے بيٹھے ہو تم كو كچھ نہ پتا ہو جيسے...
  4. فرحت کیانی

    حبیب جالب ظلمت کو ضیاء، صَرصَر کو صبا، بندے کو خُدا کیا لکھنا ۔۔۔۔حبیب جالب

    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو...
  5. محمداحمد

    زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی - اعزاز احمد آذر

    غزل تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی خون تاروں کا جو ہو گا تو شفق پھوٹے گی سُرخیء خُوں سے سحر اور نکھر جائے گی تھک کے بیٹھا ہوں میں سایوں کے گھنے جنگل میں سوچتا ہوں کہ ہر اک راہ کدھر جائے گی یہ الگ بات کہ دن میرے مقدّر میں نہ ہو رات پھر رات ہے آخر کو...
  6. محمداحمد

    افتخار عارف وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو - افتخار عارف

    غزل فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو وہ کیا بہار کہ پیوندِ خاک ہو کے رہے کشاکشِ روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو کہاں ہے اور خزانہ بجز خزانۂ خواب لٹانے والا لٹاتا رہے کمی بھی نہ ہو یہی ہوا ، یہی بے مہرو بے لحاظ ہوا یہی نہ ہو تو چراغوں...
  7. فرحت کیانی

    اکثر شبِ تنہائی میں۔۔۔۔ نادر کاکوروی

    اکثر شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے گزری ہوئی دلچسپیاں بیتے ہوئے دن عیش کے بنتے ہیں شمعِ ذندگی اور ڈالتے ہیں روشنی میرے دلِ صد چاک پر وہ بچپن اوروہ سادگی وہ رونا وہ ہنسنا کبھی پھر وہ جوانی کے مزے وہ دل لگی وہ قہقہے وہ عشق وہ عہدِ و فا وہ وعدہ اور وہ شکریہ وہ لذتِ بزمِ طرب یاد آتے ہیں...
  8. فرخ منظور

    عدم وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں - عدم

    وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی بے نظیر ہوتے ہیں تیری محفل میں بیٹھنے والے کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں پھول دامن میں چند رکھ لیجئے راستے میں فقیر ہوتے ہیں زندگی کے حسین ترکش میں کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں دیکھنے والا اک نہیں ملتا آنکھ والے...
  9. فرخ منظور

    کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں - نوابزادہ نصراللہ

    کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا...
  10. ظ

    خوابوں میں تیرے ، گر میری خواہش نہیں ‌ہوگی

    خوابوں میں تیرے ، گر میری خواہش نہیں ‌ہوگی مجھ سے تیری آنکھوں کی ، پرستش نہیں ہوگی آواز میری بیٹھ تو سکتی ہے ، تھکن سے لہجے میں میرے مگر ، گذارش نہیں ہوگی ہو فکر جسے خود ، وہ میرا حال پرکھ لے مجھ سے تو میرے غم کی ، نمائش نہیں ہوگی مانے کے نہ مانے مجھے شہزاد ، زمانہ یہ طے ہے...
  11. ظ

    کیا خبر تھی کہ میں اس درجہ ، بدل جاؤں گا

    کیا خبر تھی کہ میں اس درجہ ، بدل جاؤں گا تجھ کو کھو دونگا ، تیرے غم سے سنبھل جاؤں گا اجنبی بن کے ملوں گا ، میں تجھے محفل میں تُو نے چھیڑی بھی تو میں بات ، بدل جاؤں گا ڈھونڈ پائے نہ جہاں ، یاد بھی تیری مجھ کو ایسے جنگل میں ، کسی روز نکل جاؤں گا ضد میں آئے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح...
  12. فرخ منظور

    تبسم ہزار گردش ِ شام و سحر سے گذرے ہيں - صوفی تبسم

    ہزار گردش ِ شام و سحر سے گذرے ہيں وہ قافلے جو تری رہگذر سے گذرے ہيں ابھي ہوس کو ميسر نہيں دلوں کا گداز ابھي يہ لوگ مقام ِ نظر سے گذرے ہيں ہر ايک نقش پہ تھا تيرے نقش ِ پا کا گماں قدم قدم پہ تری رہ گذر سے گذرے ہيں نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائيں نظر کے قافلے ديوار و در سے...
  13. محمداحمد

    پیرزادہ قاسم سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو - پیرزادہ قاسم

    غزل سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر نمو کی ایک رمق تو شجر...
  14. محمداحمد

    محسن نقوی بہار کیا، اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے تو کچھ نہ پائے - محسن نقوی

    غزل بہار کیا، اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے تو کچھ نہ پائے میں برگِ صحرا ہوں ، یوں بھی مجھ کو ہَوا اُڑائے تو کچھ نہ پائے میں پستیوں میں پڑا ہوا ہوں، زمیں کے ملبوس میں جڑا ہوں مثالِ نقشِ قدم پڑا ہوں، کوئی مٹائے، توکچھ نہ پائے تمام رسمیں ہی توڑ دی ہیں، کہ میں نے آنکھیں ہی پھوڑ دی ہیں...
  15. نوید ملک

    اعتبار ساجد دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں

    دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں زندگی! تو نے ہمیں کیسی سزائیں دی ہیں شعلوں جیسی ہی عطا کی ہیں سلگتی بوندیں آگ برساتی ہوئی ہم کو گھٹائیں دی ہیں اک دعا گو نے رفاقت کی تسلی دے کر عمر بھر ہجر میں جلنے کی سزائیں دی ہیں دل کو بجھنے کا بہانہ کوئی درکار تو تھا دکھ تو یہ ہے ترے...
  16. فرحت کیانی

    جون ایلیا زخمِ امید بھر گیا کب کا۔۔۔۔جون ایلیا

    زخمِ امید بھر گیا کب کا قیس تو اپنے گھر گیا کب کا آپ اک اور نیند لے لیجئے قافلہ کُوچ کر گیا کب کا دکھ کا لمحہ ازل ابد لمحہ وقت کے پار اتر گیا کب کا اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی پر وہ ظالم اتر گیا کب کا آپ اب پوچھنے کو آئے...
  17. حجاب

    امجد اسلام امجد اس بھید بھری چُپ میں ۔۔۔۔۔۔

    اے شمعِ کوئے جاناں ہے تیز ہوا ، مانا لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا ایسی ہی کسی شب میں آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو پیروں پہ لہو اُس کے آنکھوں میں دھواں ہوگا چہرے کی دراڑوں میں بیتے ہوئے برسوں کا ایک ایک نشاں ہوگا بولے...
  18. زھرا علوی

    میں یوں تقسیم نہ ہوتا۔۔۔

    "محبت کے سوالوں کو حوالے مل گئے ہوتے جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں پر کھل گئے ہوتے مرے ہر خواب کی تکمیل بھی آسان ہو جاتی فراریت مجھے بے سمت رستوں پہ نہ بھٹکاتی ضرورت مجھکو بے آواز چہروں سے نہ ملواتی ہزاروں صورتوں میں یوں کبھی تجسیم نہ ہوتا اگر تم پاس رہتے تو۔۔۔۔۔۔ میں یوں تقسیم نہ ہوتا"۔۔۔۔
  19. حجاب

    آج اُسے پھر یاد کیا ۔۔۔

    آج ذرا فرصت پائی تھی ، آج اُسے پھر یاد کیا بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے رنگ اُڑائے ، پھول کھلائے ، چڑیوں کو آزاد کیا بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے ، رستہ روکے راہوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا بات...
  20. حجاب

    انتظار ۔۔اختر الایمان

    زندگی ایک طویل بل کھاتی شاہراہِ عظیم ہے جس پر نرم مٹی کی گود کے پالے کتنے بھرپور سایہ دار شجر کتنی پُر شور ندیاں ، چشمے کتنے ماہ و نجوم ، آوارہ مشعلیں اپنی تیرگی میں لیئے کتنی خوشبوئیں ، رنگ رنگ کے پھول منتظر راہ رو کی آمد کے صبح سے شام تک سنورتے ہیں روز و شب انتظار کرتے ہیں (...
Top