یوں تو جاتے میں نے اسے ، روکا بھی نہیں
پیار اس سے نہ رہا ہو میرا ، ایسا بھی نہیں
مانگ لیتا محبت بھی ، میں بھکاری بن کر
درد سینے میں بہت تھا مگر ، اتنا بھی نہیں
منتظر میں نہ تھا ، کسی شام اس کا
اور وعدے پہ شخص وہ کبھی ، آیا بھی نہیں
اب اس کی بھی شہزاد ، شکایت ہے یہی
پیار تو دور میں نے اُسے ، چاہا بھی نہیں