یوں تو جاتے میں نے اسے ، روکا بھی نہیں

ظفری

لائبریرین

یوں تو جاتے میں نے اسے ، روکا بھی نہیں
پیار اس سے نہ رہا ہو میرا ، ایسا بھی نہیں

مانگ لیتا محبت بھی ، میں بھکاری بن کر
درد سینے میں بہت تھا مگر ، اتنا بھی نہیں‌

منتظر میں‌ نہ تھا ، کسی شام اس کا
اور وعدے پہ شخص وہ کبھی ، آیا بھی نہیں


اب اس کی بھی شہزاد ، شکایت ہے یہی
پیار تو دور میں نے اُسے ، چاہا بھی نہیں
 
Top