زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی - اعزاز احمد آذر

محمداحمد

لائبریرین
غزل

تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی

خون تاروں کا جو ہو گا تو شفق پھوٹے گی
سُرخیء خُوں سے سحر اور نکھر جائے گی

تھک کے بیٹھا ہوں میں سایوں کے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ ہر اک راہ کدھر جائے گی

یہ الگ بات کہ دن میرے مقدّر میں نہ ہو
رات پھر رات ہے آخر کو گزر جائے گی

میرا سرمایہ تری یاد ہے اے جانِ غزل
تجھ کو بھولا تو مری شاعری مر جائے گی

چشمِ برہم سے میں خائف تو نہیں ہوں آذر
یہ وہ ندی ہے جو چڑھتے ہی اُتر جائے گی

اعزاز احمد آذر
 

گرو جی

محفلین
میرے بھائی ایک مشورہ مانو گے ؟
اگر ہان تو آپ اہنے پسندیدہ کلام کا الگ دھاگہ کھول لیں اور اس میں تمام کلام شامل کرتے رہیں بجائے اس کے کہ ہر کلام الگ دھاگے پر آئے
امید کرتا ہوں کہ آپ میرے درخواست کو درخور اعتنا سمجھیں گے
شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے بھائی ایک مشورہ مانو گے ؟
اگر ہان تو آپ اہنے پسندیدہ کلام کا الگ دھاگہ کھول لیں اور اس میں تمام کلام شامل کرتے رہیں بجائے اس کے کہ ہر کلام الگ دھاگے پر آئے
امید کرتا ہوں کہ آپ میرے درخواست کو درخور اعتنا سمجھیں گے
شکریہ

عدنان بھائی!

آپ کا مشورہ بہت اچھا ہے۔ لیکن جو کلام میں منتخب کررہا ہوں اسے اپنی ذات تک محدود نہیں کرنا چاہتا۔ جو بھی کلام اچھا ہے وہ تمام سخن فہم احباب کی امانت ہےاس لئے اپنے نام کی لڑی میں محبوس کرنا کچھ عجیب سا ہے۔ پھر بھی اگر اسی طرح پوسٹنگ کرنا یہاں کی ریت ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔
 

گرو جی

محفلین
بات یہ نہیں‌ ہے
دراصل ایک دم سے آپ کے بہت سے لڑیا کھل جاتی ہیں نہ تو اس لئے کہہ رہا تھا
 
پہلے شعر نے گرفت میں لے لیا، تاہم باقی غزل بنڈل ہے:

تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی
 
Top