اعزاز احمد آذر

  1. نیرنگ خیال

    میں الجھ گیا جہاں راہ میں وہاں ایک جم غفیر تھا (اعزاز احمد آذؔر)

    دو یا تین سال قبل محمداحمد بھائی نے اعزاز احمد آذؔر صاحب کا کلام بزبان شاعر پیش کیا تھا جس کی آج یوں ہی بیٹھے بیٹھے مجھے یاد آگئی۔ تلاش بسیار کے باوجود مجھے یونیکوڈ میں وہ کلام نہیں ملا ، ماسوائے ان دو اشعار کے جو میں نے ہی بدقسمتی سے وہاں سے سن کر لکھے تھے۔ آج اسی کلام کو دوبارہ سن کر یہاں پیش...
  2. محمداحمد

    میں اُلجھ گیا جہاں راہ میں وہاں ایک جمِ غفیر تھا۔ اعزاز احمد آذر ۔ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر

  3. محمداحمد

    انا پرست تھے دونوں، مفاہمت نہ ہوئی - اعزاز احمد آذر

    غزل خود اپنی ذات سے اب تک مصالحت نہ ہوئی چلے سفر پہ تو گھر کو مراجعت نہ ہوئی کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا انا پرست تھے دونوں، مفاہمت نہ ہوئی وہ شخص اچھالگا اُس سے صاف کہہ ڈالا یہ دل کی بات تھی ہم سے منافقت نہ ہوئی زباں سے کہنا پڑا جو نہ کہنا چاہا تھا وفا کی بات اشاروں...
  4. محمداحمد

    تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا - اعزاز احمد آذر

    غزل تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیا ل رکھنا اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی اب اُس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا دیارِ الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے...
  5. محمداحمد

    یہ رتجگوں کا کسی طور سلسلہ نہ رہے - اعزاز احمد آذر

    غزل یہ رتجگوں کا کسی طور سلسلہ نہ رہے ملو تو یوں کہ بچھڑنے کا شائبہ نہ رہے ہُو ا ہے فطرتِ ثانی یہ جاگتے رہنا بلا سے خواب کا آنکھوں میں ذائقہ نہ رہے ملا تو روئے گا اب بھی وہ لگ کے سینے سے کہ اپنے حال کا ماضی سے فاصلہ نہ رہے بچھڑنا شرط ہی ٹھہر ا تو یوں بچھڑ جائیں کسی کو ترکِ تعلق...
  6. محمداحمد

    درختِ جاں پر عذاب رُت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے - اعزاز احمد آزر

    غزل درختِ جاں پر عذاب رُت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے نشاطِ منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجرِ سفر ہی دے دو وہ رہ نوردِ رہِ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اُٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں ہمارے حصّے میں عذر...
  7. محمداحمد

    زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی - اعزاز احمد آذر

    غزل تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی خون تاروں کا جو ہو گا تو شفق پھوٹے گی سُرخیء خُوں سے سحر اور نکھر جائے گی تھک کے بیٹھا ہوں میں سایوں کے گھنے جنگل میں سوچتا ہوں کہ ہر اک راہ کدھر جائے گی یہ الگ بات کہ دن میرے مقدّر میں نہ ہو رات پھر رات ہے آخر کو...
Top