محمداحمد
لائبریرین
غزل
یہ رتجگوں کا کسی طور سلسلہ نہ رہے
ملو تو یوں کہ بچھڑنے کا شائبہ نہ رہے
ہُو ا ہے فطرتِ ثانی یہ جاگتے رہنا
بلا سے خواب کا آنکھوں میں ذائقہ نہ رہے
ملا تو روئے گا اب بھی وہ لگ کے سینے سے
کہ اپنے حال کا ماضی سے فاصلہ نہ رہے
بچھڑنا شرط ہی ٹھہر ا تو یوں بچھڑ جائیں
کسی کو ترکِ تعلق کا کچھ گلہ نہ رہے
اُتار کر تجھے دل میں میں پھوڑ لوں آنکھیں
پلٹ کے جا بھی سکے تو وہ راستہ نہ رہے
یہ دل ہی توڑ دوں تجھ سے جو بد گماں ہو کبھی
کہ آئے بال تو بہتر ہے ائینہ نہ رہے
ہے تیر ی ترکِ مراسم کی خواہشوں کا خیال
دعا یہ ہے کہ تجھے اِس کا حوصلہ نہ رہے
اگر ہو نام تو گویا مثال ہو آذر
محبّتوں میں مرا صر ف تذکرہ نہ رہے
اعزاز احمد آذر
یہ رتجگوں کا کسی طور سلسلہ نہ رہے
ملو تو یوں کہ بچھڑنے کا شائبہ نہ رہے
ہُو ا ہے فطرتِ ثانی یہ جاگتے رہنا
بلا سے خواب کا آنکھوں میں ذائقہ نہ رہے
ملا تو روئے گا اب بھی وہ لگ کے سینے سے
کہ اپنے حال کا ماضی سے فاصلہ نہ رہے
بچھڑنا شرط ہی ٹھہر ا تو یوں بچھڑ جائیں
کسی کو ترکِ تعلق کا کچھ گلہ نہ رہے
اُتار کر تجھے دل میں میں پھوڑ لوں آنکھیں
پلٹ کے جا بھی سکے تو وہ راستہ نہ رہے
یہ دل ہی توڑ دوں تجھ سے جو بد گماں ہو کبھی
کہ آئے بال تو بہتر ہے ائینہ نہ رہے
ہے تیر ی ترکِ مراسم کی خواہشوں کا خیال
دعا یہ ہے کہ تجھے اِس کا حوصلہ نہ رہے
اگر ہو نام تو گویا مثال ہو آذر
محبّتوں میں مرا صر ف تذکرہ نہ رہے
اعزاز احمد آذر