صوفی تبسّم

  1. فرخ منظور

    تبسم تیرے دم سے ہیں غم کدے آباد ۔ صوفی تبسّم

    تیرے دم سے ہیں غم کدے آباد شادباش اے غمِ محبت شاد ایک عالم ہے خانماں برباد کیا فراواں ہے دولتِ بیدار ہے وہی شانِ نخوّتِ پرویز وائے ناکامی غمِ فرہاد سرنگوں ہیں نواگرانِ قفس اوج پر ہے ستارۂ صیّاد تیرے عہدِ شباب سے ظالم ہوئیں لاکھوں جوانیاں برباد میں تہی دستِ حسرتِ دیدار شہر کا گوشہ گوشہ...
  2. فرخ منظور

    تبسم وصل، فردوسِ چشم و گوش سہی ۔ صوفی تبسّم

    وصل، فردوسِ چشم و گوش سہی روح کو کس طرح قرار آئے تم گلستانِ آرزو تو بنو پھر خزاں آئے یا بہار آئے وہ نہ سمجھے دلِ حزیں کی بات اشک آنکھوں میں بار بار آئے ہے زمانے میں اعتبارِ وفا کاش تم کو بھی اعتبار آئے (صوفی تبسّم)
  3. فرخ منظور

    تبسم خرد مندی جنونِ عشق کا حاصل نہ بن جائے ۔ صوفی تبسّم

    خرد مندی جنونِ عشق کا حاصل نہ بن جائے یہ طوفانِ رواں تھم کر کہیں ساحل نہ بن جائے نظر کی بے زبانی داستانِ دل نہ بن جائے یہ خاموشی مری ہنگامۂ محفل نہ بن جائے الجھ کر رہ نہ جائے کہکشاں ہی میں نظر میری نشانِ جادۂ منزل، کہیں منزل نہ بن جائے میں ہر دشواریِ انجام کو آساں سمجھتا ہوں یہ آسانی مری...
  4. فرخ منظور

    تبسم نگاہِ لطف وہ مجھ پر وفا شعار کرے ۔ صوفی تبسّم

    نگاہِ لطف وہ مجھ پر وفا شعار کرے جو ایک بار کہوں تو ہزار بار کرے بنا رہے ہیں گلستاں میں طائرانِ بہار وہ آشیاں کہ قفس کو بھی شرمسار کرے نگاہِ ناز سے مستی بکھیرنے والے تری نگاہ دو عالم کو مے گسار کرے جسے جہان میں سدا اشک بار رہنا ہو ترے فسونِ تبسّم کا اعتبار کرے (صوفی تبسّم)
  5. فرخ منظور

    تبسم ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا ۔ صوفی تبسّم

    ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا میرا گھر وصل کی شب خُلد کا نقشہ ہو گا تو نے کھائی تو قسم ضبطِ محبت کی مگر وہ کہیں بزم میں آ جائیں تو پھر کیا ہو گا مضطرب ہو کے جو اٹھتا ہے تری رہ کا غبار کوئی بے تاب تہِ خاک تڑپتا ہو گا حسنِ گلزار ہے تحسینِ نگہ کا محتاج آپ جس پھول کو توڑیں وہی رعنا ہو...
  6. فرخ منظور

    تبسم تری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں ۔ صوفی تبسّم

    تری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں محبت کی متاعِ غیر فانی لے کے آیا ہوں میں آیا ہوں فسونِ جذبۂ دل آزمانے کو نگاہِ شوق کی جادو بیانی لے کے آیا ہوں میں آیا ہوں سنانے قصۂ غم سرد آہوں میں ڈھلکتے آنسوؤں کی بے زبانی لے کے آیا ہوں میں تحفہ لے کے آیا ہوں تمناؤں کے پھولوں کا لٹانے کو بہارِ...
  7. فرخ منظور

    تبسم مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں ۔ صوفی تبسّم

    مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں بے خانماں ہیں اپنے ٹھکانے کو گھر کہاں اس نقشِ پا کو سجدے کیے جا رہا ہوں میں لے جائے دیکھیے یہ ترا رہگزر کہاں فرقت نے تیری چھین لیا لطفِ زندگی وہ رات دن کہاں ہیں وہ شام و سحر کہاں اٹھتی ہے ہوک سی دلِ امیدوار میں پڑتی ہے بزم میں تری ترچھی نظر کہاں اِس...
  8. فرخ منظور

    تبسم علاجِ دردِ دلِ سوگوار ہو نہ سکا ۔ صوفی تبسّم

    علاجِ دردِ دلِ سوگوار ہو نہ سکا وہ غم نواز رہا، غم گُسار ہو نہ سکا بہت دکھائے نگہ نے طلسمِ رنگینی خزاں پہ مجھ کو گمانِ بہار ہو نہ سکا جنوں نے لاکھ کیا چاک جیب و داماں کو یہ رازِ عشق مگر آشکار ہو نہ سکا عطا کیا جسے تُو نے غمِ محبتِ دوست وہ دل اسیرِ غمِ روزگار ہو نہ سکا وہ مجھ پہ لطفِ...
  9. فرخ منظور

    تبسم وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ ۔ صوفی تبسّم

    وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ کہاں میں کہاں یہ مقام، اللہ اللہ یہ رُوئے درخشاں، یہ زلفوں کے سائے یہ ہنگامۂ صبح و شام، اللہ اللہ یہ جلووں کی تابانیوں کا تسلسل یہ ذوقِ نظر کا دوام، اللہ اللہ وہ سہما ہوا آنسوؤں کا تلاطُم وہ آبِ رواں بے خرام، اللہ اللہ شبِ وصل کی ساعتیں مختصر سی تمناؤں کا...
  10. فرخ منظور

    تبسم رہا کروٹیں ہی بدلتا زمانہ ۔ صوفی تبّسم

    رہا کروٹیں ہی بدلتا زمانہ وہی میں، وہی در، وہی آستانہ وہی تُو، وہی شانِ بے التفاتی وہی میں، وہی جذبۂ والہانہ ترے حسن کی دلبری غیر فانی مرے عشق کی بے کلی جاودانہ یہی ہے جو ذوقِ اسیری تو اِک دن قفس کو بھی شرمائے گا آشیانہ زباں تھک گئی داستاں کہتے کہتے نگاہیں ابھی کہہ رہی ہیں فسانہ (صوفی تبسّم)
  11. فرخ منظور

    تبسم یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ ۔ صوفی تبسم

    یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ یہ جامِ مے خوشگوار، اللہ اللہ اُدھر ہیں نظر میں نظارے چمن کے اِدھر رُوبرو رُوئے یار، اللہ اللہ اُدھر جلوۂ مضطرب، توبہ توبہ اِدھر یہ دلِ بے قرار، اللہ اللہ وہ لب ہیں کہ ہے وجد میں موجِ کوثر وہ زلفیں ہیں یا خلد زار، اللہ اللہ میں اِس حالتِ ہوش میں مست و بیخود وہ...
  12. فرخ منظور

    فریدہ خانم یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب ۔ سیّاں چودھری، فریدہ خانم، شاعر: صوفی تبسّم

    یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب گلوکارہ: سیّاں چودھری گلوکارہ: فریدہ خانم غزل بشکریہ وارث صاحب۔ یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر شاید...
  13. فرخ منظور

    پہیلیاں ۔ صوفی تبسّم

    پہیلیاں (1) دُبلی پتلی سی اِک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منھ چُومو تو شور مچائے بات کرو تو چُپ ہو جائے (2) میری پہیلی بوجھو گے تُم ایک انچ چڑیا ، دو گز کی دم (3) بات انوکھی کیا کوئی جانے اِک ڈبیا میں سینکڑوں دانے میٹھے میٹھے، رنگ رنگیلے رس بھرے، رس دار ، رسیلے کوئی چُوسے ، کوئی چبائے...
  14. فرخ منظور

    رات دن ۔ صوفی تبسّم

    رات دن کیسے اللہ نے بنائے رات دن کیسی حِکمت سے سجائے رات دن صبح آئی تو اجالا آ گیا شام آئی تو اندھیر چھا گیا دن ہوا تو لوگ سارے جاگ اٹھے رات آئی چاند تارے جاگ اٹھے دن بنا ہے کام کرنے کے لئے رات ہے آرام کرنے کے لئے کوئی ہو، انسان یا حیوان ہو جانور ہو یا کوئی بے جان ہو رات اُن کے ڈھنگ ہی کچھ اور...
  15. فرخ منظور

    چُوہوں کی میٹنگ ۔ صوفی تبس۔م

    چُوہوں کی میٹنگ آؤ سُن جاؤ ایک بات مری رات چوہوں نے ایک میٹنگ کی جمع تھے چھوٹے اور بڑے چوہے جہاں دیکھا نظر پڑے چوہے چوہوں اور چوہیوں کا ریلا تھا جلسہ یہ کیا تھا ، ایک میلا تھا کیا کہوں میں کہاں سے آئے تھے کچھ یہاں ، کچھ وہاں سے آئے تھے تھے وہاں کُل جہان کے چوہے ہر بڑے خاندان کے چوہے چوہوں میں...
  16. فرخ منظور

    راجا رانی کی کہانی ۔ صوفی تبسّم

    راجا رانی کی کہانی آؤ بچّو ، سنو کہانی ایک تھا راجا ایک تھی رانی دونوں اِک دن شہر میں آئے شہر سے اِک اِک گڑیا لائے راجے کی گڑیا تھی دبلی رانی کی گڑیا تھی موٹی راجے کی گڑیا تھی لمبی رانی کی گڑیا تھی چھوٹی راجا بولا "میری گڑیا میری گڑیا بڑی ہی سیانی گڑیاؤں میں جیسے رانی" رانی بولی "میری گڑیا...
  17. فرخ منظور

    شمیم کی بلّی ۔ صوفی تبسّم

    شمیم کی بلّی ایک لڑکی تھی ننّھی منّی سی موٹی سی اور تھُن مُتھنّی سی نام تو اُس کا تھا شمیم افشاں پر اسے لوگ کہتے تھے چھیماں اُس نے پالی تھی اِک بڑی بلّی جتنی وہ خود تھی اتنی ہی بلّی جس طرف وہ قدم اٹھاتی تھی بلّی بھی اس کے ساتھ جاتی تھی یہ جو سوتی تو وہ بھی سوتی تھی یہ جو روتی تو وہ بھی روتی...
  18. فرخ منظور

    ثریّا کی گڑیا ۔ صوفی تبسّم

    ثریّا کی گڑیا سُنو اِک مزے کی کہانی سنو کہانی ہماری زبانی سنو ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ مگر اِک شرارت کی پڑیا تھی وہ جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ نہ امّی کے ساتھ اور نہ بھیّا کے ساتھ وہ ہر وقت رہتی ثریّا...
  19. فرخ منظور

    تارے ۔ صوفی تبسّم

    تارے رات آئی اور جاگے تارے ننھے منّے چھوٹے چھوٹے آ بیٹھے ہیں مل کر سارے رات آئی اور جاگے تارے دیکھو کیسے چمک رہے ہیں گویا موتی دمک رہے ہیں کتنے اچھے ، کتنے پیارے رات آئی اور جاگے تارے تھک جاتے ہیں چلتے چلتے آخر آنکھیں ملتے ملتے سو جاتے ہیں نیند کے مارے رات آئی اور جاگے تارے چُپکے چُپکے ہنستے...
  20. فرخ منظور

    گڑیا از صوفی تبسّم

    گُڑیا کبھی غُل مچاتی ہے گُڑیا ہر اِک طرح سے دل لبھاتی ہے گُڑیا نہ پوچھو مزاج اس کا نازک ہے کتنا ذرا کچھ کہو ، منہ بناتی ہے گُڑیا وہ روئے تو میں چُپ کراتی ہوں اس کو میں روؤں تو مجھ کو ہنساتی ہے گُڑیا جو گھر میں کوئی غیر آئے تو فوراً دوپٹے سے منہ کو چھُپاتی ہے گُڑیا وہ بلبل ہے میری ، وہ مینا...
Top