چُوہوں کی میٹنگ ۔ صوفی تبس۔م

فرخ منظور

لائبریرین
چُوہوں کی میٹنگ


آؤ سُن جاؤ ایک بات مری
رات چوہوں نے ایک میٹنگ کی
جمع تھے چھوٹے اور بڑے چوہے
جہاں دیکھا نظر پڑے چوہے
چوہوں اور چوہیوں کا ریلا تھا
جلسہ یہ کیا تھا ، ایک میلا تھا
کیا کہوں میں کہاں سے آئے تھے
کچھ یہاں ، کچھ وہاں سے آئے تھے
تھے وہاں کُل جہان کے چوہے
ہر بڑے خاندان کے چوہے
چوہوں میں ایک چوہا کانا تھا
سارے چوہوں سے بڑھ کے سیانا تھا
اِک نیا زرد سوٹ تھا پہنے
آ کے اِسٹیج پر لگا کہنے
"اے مِرے بھائیو! مِری بہنو
غور سے ایک بات میری سنو
بلّی ہے اپنی جان کی دشمن
چوہوں کے خاندان کی دشمن
ہم کسی کو بھی کچھ نہیں کہتے
ہم تو ہیں امن چین سے رہتے
اپنا کھاتے ہیں اپنا پیتے ہیں
اپنی روزی پہ آپ جیتے ہیں
یہ ہمیں کِس لیے ستاتی ہے؟
جہاں مل جائیں ہم کو کھاتی ہے
کیا یونہی مُفت ہم کو مرنا ہے؟
کچھ تو اِس کا علاج کرنا ہے
اِک بتاتا ہوں بات آج تمہیں
اور بتاتا ہوں اِک علاج تمہیں
بات کہتا ہوں تم سے چھوٹی سی
اِس کی گردن میں ڈال دو گھنٹی
یہ اِدھر آئے تو کرے ٹَن ٹَن
یہ اُدھر جائے تو کرے ٹَن ٹَن
جب بھی ٹَن ٹَن ہو بھاگ جائیں ہم
مفت میں جان کیوں گنوائیں ہم
بولے سب "واہ واہ زندہ باد
او میاں کانے شاہ زندہ باد"
ختم جب سارے اُن کے جوش ہوئے
تالیاں بج چکیں ، خموش ہوئے
اِک طرف ایک چوہا بیٹھا تھا
تجربہ کار اور بوڑھا تھا
ہولے ہولے سٹیج پر آیا
آکے اِسٹیج پر یہ فرمایا
"اے مرے دوستو! مرے یارو!
میرے داناؤ! تجربہ کارو!
بات اچھّی یہ کانے شہ کی ہے
تم نے بھی سُن کے واہ واہ کی ہے
کون یہ حوصلہ نکالے گا
گھنٹی اُس کے گلے میں ڈالے گا؟
گھنٹی جب تک بجائے گی بلّی
پہلے اُس کو نہ کھائے گی بلّی؟
سُن کے خاموش ہو گئے چوہے
گِر کے بے ہوش ہو گئے چوہے
اتنے میں ایک آگئی بلّی
جتنے چوہے تھے کھا گئی بلّی


(صوفی تبسّم)

 
Top