صوفی تبسّم

  1. فرخ منظور

    تبسم جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں ۔ صوفی تبسّم

    جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں ہم ہوئے کس سے جدا یاد نہیں ایک شعلہ سا اُٹھا تھا دل میں جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں ایک نغمہ سا سنا تھا میں نے کون تھا شعلہ نوا یاد نہیں روز دہراتے تھے افسانۂ دل کس طرح بھول گیا یاد نہیں اک فقط یاد ہے جانا اُن کا اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں تو مری جانِ تمنّا...
  2. فرخ منظور

    تبسم سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو ۔ صوفی تبسّم

    سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو گزر گئی ہے شبِ غم، سحر کی بات کرو دلوں کا ذکر ہی کیا ہے، ملیں، ملیں، نہ ملیں نظر ملاؤ، نظر سے نظر کی بات کرو شگفتہ ہو نہ سکے گی فضائے ارض و سما کسی کی جلوہ گہِ بام و در کی بات کرو حریمِ ناز کی خلوت میں دسترس ہے کسے نظارہ ہائے سرِ رہ گزر کی بات کرو بدل نہ...
  3. فرخ منظور

    تبسم جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے ۔ صوفی تبسّم

    جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے درد کے عنواں بدل کر رہ گئے کتنی فریادیں لبوں پر رُک گئیں کتنے اشک، آہوں میں ڈھل کر رہ گئے رخ بدل جاتا مری تقدیر کا آپ ہی تیور بدل کر رہ گئے کھُل کے رونے کی تمنّا تھی ہمیں ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے زندگی بھر ساتھ دینا تھا جنہیں دو قدم ہمراہ چل کر رہ گئے تیرے...
  4. فرخ منظور

    تبسم فسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے ۔ صوفی تبسّم

    افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے میں جتنا ان کی یاد بھلاتا...
  5. فرخ منظور

    تبسم تمناؤں کی دنیا جگمگائی ۔ صوفی تبسّم

    تمناؤں کی دنیا جگمگائی یہ کس رنگیں ادا کی یاد آئی نگاہِ شوق کو رسوا کرے گی تری جلووں کی شانِ خود نمائی وہ طوفانِ ہوس تھا آرزو کا کہ ناموسِ محبت ڈگمگائی محبت کی خموشی بھی فسانہ محبت کی فغاں بھی خوش نوائی محبّت کا وہ سنگِ آستاں ہے لرزتی ہے جبینِ پارسائی ہنسی کیا آئی ان نازک لبوں پر...
  6. فرخ منظور

    تبسم رسمِ مہر و وفا کی بات کریں ۔ صوفی تبسّم

    رسمِ مہر و وفا کی بات کریں پھر کسی دل ربا کی بات کریں سخت بیگانۂ حیات ہے دل آؤ اس آشنا کی بات کریں زلف و رُخسار کے تصوّر میں حسن و ناز و ادا کی بات کریں گیسوؤں کے فسانے دہرائیں اپنے بختِ رسا کی بات کریں مدّعائے وفا کسے معلوم دلِ بے مدّعا کی بات کریں کشتیِ دل کا ناخدا دل ہے کیوں کسی...
  7. فرخ منظور

    تبسم کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر ۔ صوفی تبسّم

    کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر چھوڑ دام و درم کی بات نہ کر دیکھ کیا کر رہے ہیں اہلِ زمیں آسماں کے ستم کی بات نہ کر اپنی آہ و فغاں کے سوز کو دیکھ ساز کے زیر و بم کی بات نہ کر یوں بھی طوفانِ غم ہزاروں ہیں عشق کی چشمِ نم کی بات نہ کر سخت الجھی ہیں زیست کی راہیں زلف کے پیچ و خم کی بات نہ کر...
  8. فرخ منظور

    تبسم سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم ۔ صوفی تبسّم

    سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم اے غمِ دوست ایک نگاہِ کرم کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بزم کی بزم ہو گئی برہم عشق نے یوں کہا افسانۂ درد حسن کی آنکھ بھی ہوئی پرنم نہ جھکے گا یہ سر کسی در پر مجھ کو تیرے ہی آستاں کی قسم اپنی ناکام آرزوؤں کو کس تمنّا سے دیکھتے ہیں ہم کیسی کیسی خزاں سے گزرے ہیں خوب...
  9. فرخ منظور

    تبسم شجر شجر نگراں ہے کلی کلی بیدار ۔ صوفی تبسّم

    شجر شجر نگراں ہے کلی کلی بیدار نہ جانے کس کی نگاہوں کو ڈھونڈتی ہے بہار کبھی فغاں بھی نشاط و طرب کا افسانہ کبھی ہنسی بھی تڑپتے ہوئے دلوں کی پکار نہ جانے کس کے نشانِ قدم سے ہیں محروم کہ ایک عمر سے سونے پڑے ہیں راہگزار عجیب حال ہے بےتابیِ محبّت کا شبِ وصال کی راحت میں ڈھونڈتی ہے قرار یہ...
  10. فرخ منظور

    تبسم روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی ۔ صوفی تبسّم

    روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی بہار منتظرِ نوبہار ہے ساقی حوادثات سے ٹکرا نہ جائے سازِ حیات غمِ جہاں سے غمِ دل دو چار ہے ساقی سحر فسردہ ہے، شام اداس اداس عجیب گردشِ لیل و نہار ہے ساقی ٹھہر گئے ہیں کہاں قافلے محبت کے ہر ایک راہ گذر سوگوار ہے ساقی دبی دبی سی ہے کچھ اس طرح سے جانِ حزیں تری...
  11. فرخ منظور

    تبسم اِس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی ۔ صوفی تبسّم

    اِس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی دو روز کی محفل ہے اِک عمر کی تنہائی پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں جس سمت نظر اٹھّی آواز تری آئی اِک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ اِک گوشۂ خلوت میں یہ دشت کی پہنائی اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی افسونِ...
  12. فرخ منظور

    تبسم قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ ۔ صوفی تبسّم

    قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ طوفانِ موج خیز کے خُوگر، سنبھل سنبھل حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ دل ہر مقامِ شوق سے آگے نکل گیا دامن کو کھینچتی رہی منزل جگہ جگہ ہر نقشِ پا تھا میرے لیے تیرا آستان آئی نظر مجھے تری محفل جگہ جگہ شانِ کرم کو عذرِ...
  13. فرخ منظور

    تبسم بہکی بہکی سی چتونیں آنکھ میں انتظار سا ۔ صوفی تبسّم

    بہکی بہکی سی چتونیں آنکھ میں انتظار سا آج یہ کس کی یاد میں حُسن ہے سوگوار سا سہمے ہوئے سے سانس میں آہ سی اِک دبی ہوئی لب پہ خفی سی لرزشیں بات میں اضطرار سا لچکی ہوئی نزاکتیں اور بھی غم سے مضمحل سمٹی ہوئی نگاہ میں اور بھی اختصار سا شانِ غرور میں نہاں، رنگِ نیازِ التجا طرزِ ادا میں بے دلی،...
  14. فرخ منظور

    تبسم جان دے کر وفا میں نام کیا ۔ صوفی تبسّم

    جان دے کر وفا میں نام کیا زندگی بھر میں ایک کام کیا بے نقاب آ گیا سرِ محفل یار نے آج قتلِ عام کیا آسماں بھی اسے ستا نہ سکا تو نے جس دل کو شاد کام کیا عشق بازی تھا کام رندوں کا تو نے اس خاص شے کو عام کیا اب کے یونہی گزر گئی برسات ہم نے خالی نہ ایک جام کیا (صوفی تبسّم)
  15. فرخ منظور

    تبسم محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم ۔ صوفی تبسّم

    محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم نگہ کی کسی نے فنا ہو گئے ہم ہے مرنا یہی موت کہتے ہیں اس کو کہ دنیا میں تجھ سے جدا ہو گئے ہم یہی انتہا ہے افرازیوں کی کہ مر کر تری خاکِ پا ہو گئے ہم ازل سے ملا ہم کو وہ سازِ ہستی کہ اِک آہ میں بے صدا ہو گئے ہم ملی روح کو اک نئی زندگانی ترے عشق میں کیا سے کیا ہو...
  16. فرخ منظور

    تبسم ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی ۔ صوفی تبسّم

    ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی جاتی نہیں بے تابیِ الفت، نہیں جاتی میخانے میں آ کر بھی وہی توبہ کی تلقین واعظ یہ تری وعظ کی عادت نہیں جاتی یاں گردشِ ساغر ہے وہاں گردشِ دوراں افلاک کی رندوں سے رقابت نہیں جاتی ہر روز تبسّم ہے تجھے ہجر کا رونا کم بخت تری شومیِ قسمت نہیں جاتی (صوفی تبسّم)
  17. فرخ منظور

    تبسم لگانا دل کسی نامہرباں سے ۔ صوفی تبسّم

    لگانا دل کسی نامہرباں سے زمیں کی دوستی ہے آسماں سے نظر آتے تھے تم تو بے زباں سے یہ باتیں آ گئیں تم کو کہاں سے نظر آتے ہیں وہ کچھ مہرباں سے گرے گی کوئی بجلی آسماں سے یہ ننگِ عجز ہے اک بار رکھ کر اٹھانا سر کسی کے آستاں سے وصالِ جاودانی چاہتا ہوں مگر وہ زندگی لاؤں کہاں سے سنا دوں داستانِ...
  18. فرخ منظور

    تبسم بہت مضطر، بہت درد آشنا دل ۔ صوفی تبسّم

    بہت مضطر، بہت درد آشنا دل عجب آفت کا ٹکڑا ہے مرا دل وفا کیا اور وفا کا تذکرہ کیا تمہارے سامنے جب رکھ دیا دل یہ دل میں تُو نے پیکاں رکھ دیا ہے کہ دل میں رکھ دیا اِک دوسرا دل ہم اپنے دل کی حالت سن کے روئے ہمارا حال سن کر رو دیا دل یہ بجلی ہے کہ شعلہ ہے کہ سیماب مرے آغوش میں ہے کیا بلا دل...
  19. فرخ منظور

    تبسم زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے ۔ صوفی تبسّم

    زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے آج سجدوں کی انتہا کر دوں شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے آسماں کے تلے زمیں نہ رہے عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ...
  20. فرخ منظور

    تبسم دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں ۔ صوفی تبسّم

    دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں صبحِ وصال ہے نہ وہ اب شامِ انتظار اب کیا رہا ہے گردشِ لیل و نہار میں وہ نازنین ہے محوِ تماشائے صحنِ گل یا اور اک بہار کھلی ہے بہار میں اِک مے گسار جام بکف ایک تشنہ کام کیا وسعتیں ہیں بخششِ پروردگار میں دنیا سے بے خبر،...
Top