تبسم ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا
میرا گھر وصل کی شب خُلد کا نقشہ ہو گا

تو نے کھائی تو قسم ضبطِ محبت کی مگر
وہ کہیں بزم میں آ جائیں تو پھر کیا ہو گا

مضطرب ہو کے جو اٹھتا ہے تری رہ کا غبار
کوئی بے تاب تہِ خاک تڑپتا ہو گا

حسنِ گلزار ہے تحسینِ نگہ کا محتاج
آپ جس پھول کو توڑیں وہی رعنا ہو گا

وحشت آموزِ تمنّا ہے تری خوئے حجاب
حسن رسوا نہ سہی عشق تو رسوا ہو گا

ہم سمجھتے تھے تبسّم بھی کوئی صوفی ہے
کیا خبر تھی کہ وہ مے نوش بلا کا ہو گا

(صوفی تبسّم)
 
Top