ہندوستان

  1. کاشفی

    تجھے کیسے علم نہ ہوسکا، بڑی دور تک یہ خبر گئی - ممتاز نسیم

    غزل (ممتاز نسیم ، ہندوستان) تجھے کیسے علم نہ ہوسکا، بڑی دور تک یہ خبر گئی تیرے ہی شہر کی شاعرہ، تیرے انتظار میں مر گئی کوئی باتیں تھیں کوئی تھا سبب، جو میں وعدہ کر کے مُکر گئی تیرے پیار پر تو یقین تھا، میں خود اپنے آپ سے ڈر گئی وہ تیرے مزاج کی بات تھی، یہ میرے مزاج کی بات ہے تو میری نظر سے نہ...
  2. کاشفی

    تیری آنکھوں میں رہوں - شبینا ادیب

    گیت (شبینا ادیب) تیری آنکھوں میں رہوں روشنی بن کر تیرے گھر کے چراغوں میں رہوں تیرا وعدہ بھی نہ سیاسی ہو اب فضاؤں میں نہ اُداسی ہو چھو کے قدموں کو ہر خوشی گزرے کاش اب یوں ہی زندگی گزرے میں تیرے ساتھ تیرے دن تیری راتوں میں رہوں پیار یہ میرا تجھ سے کہتا ہے دل کی دھڑکن میں تو ہی رہتا ہے گیت میں...
  3. کاشفی

    میری زندگی کی کتاب کا، ہے ورق ورق یوں سجا ہوا - ممتاز نسیم

    غزل (ممتاز نسیم ، ہندوستان) میری زندگی کی کتاب کا، ہے ورق ورق یوں سجا ہوا سرِ ابتدا سرِ انتہا، تیرا نام دل پہ لکھا ہوا یہ چمک دمک تو فریب ہے، مجھے دیکھ گہری نگاہ سے ہے لباس میرا سجا ہوا، میرا دل مگر ہے بجھا ہوا میری آنکھ تیری تلاش میں، یوں بھٹکتی رہتی ہے رات دن جیسے جنگلوں میں ہرن کوئی ہو...
  4. کاشفی

    کسی نیزے پہ کوئی سر نہیں ہے - ملِک زادہ جاوید

    غزل (ملِک زادہ جاوید) کسی نیزے پہ کوئی سر نہیں ہے شجاعت سے بھرا لشکر نہیں ہے پُرانے لوگ اُکساتے ہیں ورنہ نئی نسلوں میں بالکل شر نہیں ہے سبھی گملے اُٹھا لایا ہوں گھر میں مجھے اب موسموں کا ڈر نہیں ہے بہت کچھ تجھ میں ہے جاوید لیکن تو اپنے باپ سے بہتر نہیں ہے
  5. کاشفی

    وہ میرے گھر نہیں آتا میں اُس کے گھر نہیں جاتا - وسیم بریلوی

    غزل (وسیم بریلوی) وہ میرے گھر نہیں آتا میں اُس کے گھر نہیں جاتا مگر احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا گھروں کی تربیت کیا آگئی ٹی وی کے ہاتھوں میں کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا کھلے تھے شہر میں سو دَر...
  6. کاشفی

    میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا - وسیم بریلوی

    غزل (وسیم بریلوی) میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ لیکن تیرے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا جاتی ہے چلی جائے یہ میخانے کی رونق کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا
  7. کاشفی

    جدھر دیکھو ستمگر بولتے ہیں - ملِک زادہ جاوید

    غزل (ملِک زادہ جاوید) جدھر دیکھو ستمگر بولتے ہیں میری چھت پر کبوتر بولتے ہیں ذرا سے نام اور تشہیر پاکر ہم اپنے قد سے بڑھ کر بولتے ہیں کھنڈر میں بیٹھ کر ایک بار دیکھو گئے وقتوں کے پتھر بولتے ہیں سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو! کہ اب بچے پلٹ کر بولتے ہیں کچھ اپنی زندگی میں مر چکے ہیں کچھ ایسے ہیں...
  8. کاشفی

    ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے - طاہر فراز

    غزل (طاہر فراز) ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے اپنے جینے کا انداز نرالا ہے آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو شاید کوئی آنسو آنے والا ہے چاند کو جب سے الجھایا ہے شاخوں نے پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا گھر کے در و دیوار پر کتنا جالا ہے
  9. کاشفی

    گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی - طاہر فراز

    غزل (طاہر فراز) گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی کچے مکاں میں اب کے بھی برسات کاٹ دی وہ سر بھی کاٹ دیتا تو ہوتا نہ کچھ ملال افسوس یہ ہے اُس نے میری بات کاٹ دی حالانکہ ہم ملے تھے بڑی مدّتوں کے بعد اوقات کی کمی نے ملاقات کاٹ دی جب بھی ہمیں چراغ میسّر نہ آسکا سورج کے ذکر سے شبِ ظلمات کاٹ دی دل...
  10. کاشفی

    جب کبھی بولنا، وقت پر بولنا - طاہر فراز

    غزل (طاہر فراز) جب کبھی بولنا، وقت پر بولنا مدّتوں سوچنا، مختصر بولنا ڈال دے گا ہلاکت میں اک دن تجھے اے پرندے تیرا شاخ پر بولنا پہلے کچھ دور تک ساتھ چل کے پرکھ پھر مجھے ہم سفر، ہمسفر بولنا عمر بھر کو مجھے بے صدا کر گیا تیرا اک بار منہ پھیر کر بولنا میری خانہ بدوشی سے پوچھے کوئی کتنا مشکل ہے...
  11. کاشفی

    غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آگیا - طاہر فراز

    غزل (طاہر فراز - رامپوری) غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آگیا غم یہ ہے قاتلوں میں تیرا نام آگیا جگنو جلے بجھے میری پلکوں پہ صبح تک جب بھی تیرا خیال سرِ شام آگیا محسوس کر رہا ہوں میں خوشبو کی بازگشت شاید تیرے لبوں پہ میرا نام آگیا کچھ دوستوں نے پوچھا بتاؤ غزل ہے کیا بےساختہ لبوں پہ تیرا نام...
  12. کاشفی

    میرے احساس کو شدّت نہ ملے - طاہر فراز

    غزل (طاہر فراز) میرے احساس کو شدّت نہ ملے یا مجھے حکمِ قناعت نہ ملے جس کے ملنے سے خُدا بن جاؤں اے خُدا مجھ کو وہ دولت نہ ملے میں تیرا شُکر ادا کرتا رہوں اور مجھے حسبِ ضرورت نہ ملے اتنا مصروف نہ کر تو کہ مجھے تجھ سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملے اُن ہی شاخوں پہ اُگاتا ہے مجھے میری جن شاخوں سے فطرت...
  13. کاشفی

    کوئی ثانی نہیں مصطفی آپ کا - شیاما سنگھ صبا

    نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (شیاما سنگھ صبا) کوئی ثانی نہیں مصطفی آپ کا دیکھتے ہیں ملَک راستہ آپ کا اب کسی رہنما کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن ہے آئینہ آپ کا مہ و خورشید دنوں بہت خوب ہیں ڈھونڈتے ہیں مگر نقشِ پا آپ کا مانگتی ہوں دعا میں یہ شام و سحر رب کا کلمہ ہو عطا بھلا آپ کا کاش اس...
  14. کاشفی

    موت منظور ہے زندگی کے لیئے - شیاما سنگھ صبا

    غزل (شیاما سنگھ صبا) موت منظور ہے زندگی کے لیئے جان حاضر ہے تیری خوشی کے لیئے گلشنِ زیست سے وادیء موت تک ہیں کئی امتحاں آدمی کے لیئے جس نے مجھ کو غموں کے حوالے کیا کر رہی ہوں دعائیں اُسی کے لیئے زندگی سے جُدا ہونا آساں نہیں حوصلہ چاہیئے خودکُشی کے لیئے
  15. کاشفی

    کسی کی آنکھ میں پانی نہیں ہے - شیاما سنگھ صبا

    غزل (شیاما سنگھ صبا) کسی کی آنکھ میں پانی نہیں ہے مگر لوگوں کو حیرانی نہیں ہے فنا ہونا ہے سب کو ایک نہ ایک دن یہاں پر کوئی لافانی نہیں ہے بچاتا ہے بلا سے کون مجھ کو اگر تیری نگہبانی نہیں ہے خدا کو چھوڑ کر اوروں سے مانگوں؟ کوئی اتنا بڑا دانی نہیں ہے ابھی دل میں تصوّر ہے تمہارا ابھی اس گھر میں...
  16. کاشفی

    ایسی وفا کرو کے وفا بولنے لگے - شیاما سنگھ صبا

    غزل (شیاما سنگھ صبا) ایسی وفا کرو کے وفا بولنے لگے مٹھی کی کنکری بھی خُدا بولنے لگے ہمت کے وہ چراغ جلاؤ حیات میں نظریں جھکا کے جن سے ہوا بولنے لگے شرمندگی کے اَشک بہاؤ کچھ اس طرح معبود کے کرم کی عطا بولنے لگے میں بولتی نہیں ہوں تو، اللہ سے ڈرو ایسا نہ ہو تمہاری جفا بولنے لگے جب سامنے آئے تو...
  17. کاشفی

    ستم کرنے والے ستم کر رہے ہیں - شیاما سنگھ صبا

    غزل (شیاما سنگھ صبا) ستم کرنے والے ستم کر رہے ہیں ہم اہلِ کرم ہیں، کرم کر رہے ہیں ستمگر کی آنکھوں کو نم کر رہے ہیں جو مشکل تھا وہ کام ہم کر رہے ہیں خُدا اُن کو رحمت سے کیسے نوازے جو سر اپنا ہر در پہ خم کر رہے ہیں بہت یاد آتے ہیں، ماضی کے جھونکے وہی میری آنکھوں کو نم کر رہے ہیں ضرور اس میں ہے...
  18. کاشفی

    جب نمازِ محبت ادا کیجئے - شانتی صبا

    غزل (شانتی صبا) جب نمازِ محبت ادا کیجئے غیر کو بھی شریکِ دعا کیجئے آنکھ والے نگاہیں چُراتے نہیں آئینہ کیوں نہ ہو، سامنا کیجئے آنکھ میں اشکِ غم آ بھی جائیں تو کیا چند قطرے تو ہیں، پی لیا کیجئے آپ کا گھر سدا جگمگاتا رہے راہ میں بھی دِیا رکھ دیا کیجئے زیرِ پا ہیں سمندر کی گہرائیاں اب تو ساحل...
  19. کاشفی

    جلوہ تھا اُس کا پیشِ نظر دیکھتی رہی - شیاما سنگھ صبا

    غزل (شیاما سنگھ صبا) جلوہ تھا اُس کا پیشِ نظر دیکھتی رہی تھا دیکھنا محال مگر دیکھتی رہی منزل پہ اپنی جا بھی چکے اہلِ کارواں میں بےبسی سے گردِ سفر دیکھتی رہی اُس پر پڑی نگہ تو محسوس یہ ہوا جل جائے گی نگہ اگر دیکھتی رہی دریا پہ لا کے اپنے سفینے جلا دیئے چشمِ شکست میرا ہُنر دیکھتی رہی
  20. کاشفی

    یوں تو ملنے کو بہت اہلِ کرم ملتے ہیں - شیاما سنگھ صبا

    غزل (شیاما سنگھ صبا) یوں تو ملنے کو بہت اہلِ کرم ملتے ہیں بےغرض ہوتے ہیں جو لوگ وہ کم ملتے ہیں کون کہتا ہے کہ بازیگر نم ملتے ہیں مُسکرا کر غمِ حالات سے ہم ملتے ہیں ذوق سجدوں کا مچل اُٹھتا ہے پیشانی میں جس جگہ پہ بھی ترے نقشِ قدم ملتے ہیں نرم لہجے میں بھی ممکن ہے کہ نفرت مل جائے اب تو پھولوں...
Top