کاشفی

محفلین
غزل
(طاہر فراز)
گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی
کچے مکاں میں اب کے بھی برسات کاٹ دی

وہ سر بھی کاٹ دیتا تو ہوتا نہ کچھ ملال
افسوس یہ ہے اُس نے میری بات کاٹ دی

حالانکہ ہم ملے تھے بڑی مدّتوں کے بعد
اوقات کی کمی نے ملاقات کاٹ دی

جب بھی ہمیں چراغ میسّر نہ آسکا
سورج کے ذکر سے شبِ ظلمات کاٹ دی

دل بھی لہو لہان ہے، آنکھیں بھی ہیں اُداس
شاید اَنا نے شہ رگِ جذبات کاٹ دی

جادوگری کا کھیل ادھورا ہی رہ گیا
درویش نے شبیہ طلسمات کاٹ دی

ٹھنڈی ہوائیں، مہکی فضا، نرم چاندنی
شب تو بس اک تھی، جو تیرے ساتھ کاٹ دی
 
Top