کلاسیکی اردو شاعری

  1. فرخ منظور

    نظیر کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا ۔ نظیر اکبر آبادی

    کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا اپنا بھی اس طرف گزر عاشقانہ تھا مل بیٹھنے کے واسطے آپس میں ہر گھڑی تھا کچھ فریب واں تو ادھر کچھ بہانہ تھا چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا...
  2. فرخ منظور

    نظیر دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا ۔ نظیر اکبر آبادی

    دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا لیا جس نے اس کا احسان کیسا جہاں زلف کافر میں دل پھنس گیا ہے تو واں دین کیسا اور ایمان کیسا ادا نے کیا دل کو پہلو میں بے کل کرے گی ستم دیکھیے آن کیسا ادھر کاجل آنکھوں میں کیا کیا کھلا ہے ملا ہے مسی سے ادھر پان کیسا نظیر اس سے ہم نے چھپایا جو دل کو تو ہنس کر کہا...
  3. محمد وارث

    نظیر غزل - ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا - نظیر اکبر آبادی

    ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ سنلقی علیہم عذاباً ثقیلا نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل تُو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا کہستاں میں ماروں اگر آہ کا دم فکانت جبالاً کثیباً مہیلا نظیر اس کے فضل و کرم پر نظر رکھ فقُل، حسبی اللہ نعم...
  4. کاشفی

    میر مہدی مجروح ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات - میرمہدی مجروح دہلوی صاحب

    غزل (جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ) شاگرد رشید (حضرت نجم الدولہ دبیرالملک اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ) ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات کل ایک لمحہ ہم نے نہ پائی تمام رات بیدار ایک میں ہی فراق صنم میں ہوں سوتی ہے ورنہ ساری خدائی تمام رات اپنی شب وصال...
  5. پ

    میر غزل-ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی-میر تقی میر

    غزل ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی کیونکر کہیئے کہ اثر گریہء مجنوں کو نہ تھا گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی یہ بگولہ تو نہیں دشتِ محبت میں سے جمع ہو خاک اڑی کتنی پریشانوں کی خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب یہی اک رہ گئی ہے...
  6. پ

    مصحفی غزل- بچا گر ناز سے تواس کو پھر انداز سے مارا - شیخ غلام ہمدانی مصحفی

    غزل بچا گر ناز سے تواس کو پھر انداز سے مارا کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا کسی کو گرمی تقدیر سے اپنی لگا رکھا کسی کو مونھ چھپا کر نرمئ آواز سے مارا ہمارا مرغِ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے گہے شاہین پھینکے اس پہ گہے باز سے مارا غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت کہ اس...
  7. کاشفی

    مصحفی کلامِ مصحفی - غلام ہمدانی مصحفی امروہوی

    کلامِ مصحفی (غلام ہمدانی مصحفی امروہوی) مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، ساکن امروہے کا ۔ اپنی قوم کا اشراف ہے، سچ تو یہ ہے کہ گفتگو اس کی بہت صاف صاف ہے۔ بندش نظم میں اس کے ایک صفائی اور شیرینی ہے، اور معنی بندش میں اس کے بلندی اور رنگینی۔ ایک مدت شاہ عالم بادشاہ غازی کے عہد سلطنت میں مقیم شاہ...
  8. فرخ منظور

    پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل ۔ قائم چاند پوری

    غزل پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل جھمکے ہے مثلِ شعلہ ہر اک سو چراغِ گُل صرفے سے آہ و نالہ کر اے عندلیبِ زار ڈرتا ہوں میں کہ ہو نہ پریشاں دماغِ گُل دے کیوں نہ داغِ دل سے دمِ سرد اطلاع ملتا ہے نت نسیمِ سحر سے سراغِ گُل مت ڈھونڈ ہم گرفتہ دلوں سے کشادِ طبع غنچے کو کیوں کہ ہووے میسّر...
  9. Saraah

    داغ ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں-نواب مرزا خان داغ

    ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں تم بھی بےچین ہم بھی ہیں بےچین تم بھی ہو بےقرار ہم بھی ہیں اے فلک کہ تو کیا ارادہ ہے عیش کے خواستگار ہم بھی ہیں شہر خالی کیے دکاں کیسی ایک ہی بادہ خوار ہم بھی ہیں شرم سمجھے تیرے تغافل کو واہ کیا ہوشیار ہم بھی ہیں آئی...
  10. محمد وارث

    مثنوی 'اشتہار پنج آہنگ' از مرزا غالب

    غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔ تعارف 'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور...
  11. کاشفی

    مصحفی جان سے تا وہ مجھے مار نہیں جانے کا - غلام ہمدانی مصحفی

    غزل (غلام ہمدانی مصحفی) جان سے تا وہ مجھے مار نہیں جانے کا جان جاوے گی ولے یار نہیں جانے کا بعد مُردن جو رہیں گے یونہیں وَادِیدہء شوق المِ حسرت دیدار نہیں جانے کا مرضِ عشق کی شاید ہو پسِ مرگ، شفا زندگی میں تو یہ آزار نہیں جانے کا رحم کر ضعف پر اُس کے کہ چمن تک صیاد نالہء مرغِ...
  12. ش

    میر تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا ۔ میر تقی میر

    تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا شکر خدا کہ حقِ محب۔ت ادا ہوا قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا حیراں رنگِ باغ جہاں تھا بہت رُکا تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا ...
  13. پ

    میر غزل -تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے -میر تقی میر

    غزل تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا تم حرف سر کرو گے ، ہم گریہ سر کریں گے عذرِ گناہِ خوباں ، بد تر گناہ سے ہو گا کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہو ں گی کیا تیری تیغ سے ہم قطع...
  14. کاشفی

    امیر مینائی لے گئی کل ہوسِ مے جو سرخُم مجھ کو - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی) لے گئی کل ہوسِ مے جو سرخُم مجھ کو ہوش کی طرح سے مستی نے کیا گم مجھ کو صورتِ غنچہ کہاں تابِ تکلم مجھ کو منہ کے سو ٹکڑے ہوں آئے جو تبسم مجھ کو مر کے راحت تو ملی پر یہ ہے کھٹکا باقی آکے عیسٰی نہ سر بالیں کہیں قم مجھ کو میں ترا عکس تھا اس آئینہء ہستی میں تونے کیا...
  15. کاشفی

    ولی دکنی میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہورہا ہوں - ولی دکنی

    غزل (ولی دکنی) میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہورہا ہوں تیری نگہ کا جب سوں دیوانہ ہورہا ہوں اے آشنا کرم سوں یک بار آدَرَس دے تجھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہورہا ہوں باتاں لگن کی مت پوچھ اے شمعِ بزمِ خوبی مدت سوں تجھ جھلک کا پروانہ ہورہا ہوں شاید وہ گنجِ خوبی آوے کسی طرف سوں اس واسطے...
  16. کاشفی

    داغ کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر - داغ دہلوی

    غزل (مرزا خاں داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر سنا کئے حال چپکے چپکے، نظر اُٹھائی نہ سر اُٹھا کر نہ طور دیکھے، نہ رنگ برتے غضب میں آیا ہوں دل لگا کر وگر نہ دیتا ہے دل زمانہ یہ آزما کر، وہ آزما کر تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو...
  17. کاشفی

    میر مہدی مجروح نوحہ: بیادِ غالب - از: میر مہدی مجروح

    نوحہ: بیادِ غالب (از: میر مہدی مجروح) کیوں نہ ویراں ہو دیارِ سخن مر گیا آج تاجدارِ سخن بلبلِ خوش ترانہء معنی گل رنگیں و شاخسارِ سخن نخل بندِ حدیقہء مضموں تازگی بخش لالہ زارِ سخن عرصہء نظم کیوں نہ ہو ویراں ہے عناں کش وہ شہسوار سخن کیوں نہ حرفوں کا ہو لباس سیاہ ہے غم مرگِ شہر...
  18. کاشفی

    درد دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا - خواجہ میر درد

    حمد باریء تعالی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا اعیان ہیں مظاہر، ظاہر ظہور تیرا یاں افتقار کا تو امکاں سبب ہوا ہے ہم ہوں نہ ہوں ولے ہے ہونا ضرور تیرا باہر نہ ہوسکی تو قیدِ خودی سے اپنی اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا ہے جلوہ گاہ تیرا کیا...
  19. کاشفی

    درد مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا - خواجہ میر درد

    حمد باریء تعالی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا جس مسند عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دَیر و حَرم کا ہے خوف اگر جی میں...
  20. کاشفی

    غالب غنچہء ناشگفتہ کو دُور سے مت دکھا کہ یُوں - غالب

    غنچہء ناشگفتہ کو دُور سے مت دکھا کہ یُوں بوسے کو پوچھتا ہوں میں مُنہ سے مجھے بتا کہ یُوں پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا کہ بِن کہے اس کے ہر اِک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں رات کے وقت مَے پئے، ساتھ رقیب کو لئے آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یُوں بزم میں اُس کے رُوبرو کیوں نہ خموش...
Top