کلاسیکی اردو شاعری

  1. کاشفی

    داغ کیا سبب شاد ہے بشّاش ہے جی آپ ہی آپ - داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ

    غزل (استاد بلبلِ ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ) کیا سبب شاد ہے بشّاش ہے جی آپ ہی آپ چلی آتی ہے مجھے آج ہنسی آپ ہی آپ ہم نشیں بھی تونہیں ہجر میں دل کیا بہلے باتیں کر لیتے ہیں دوچار گھڑی آپ ہی آپ کچھ تو فرمائیے اس بدمزگی کا باعث آپ ہی آپ ہے رنجش خفگی آپ...
  2. فرخ منظور

    داغ بات میری کبھی سنی ہی نہیں ۔ داغ دہلوی

    غزل بات میری کبھی سنی ہی نہیں جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں جان کیا دوُں کہ جانتا ہوں میں تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں ہم تو...
  3. کاشفی

    دل وہ دے جس کو التجا ہی نہ ہو - لالہ مکند لعل جوہری

    غزل (شاعر نازک خیال لالہ مکندلعل صاحب المتخلص بہ جوہری ساکن قصبہ کاکوری ضلع لکھنؤ) دل وہ دے جس کو التجا ہی نہ ہو کوئی خواہش اُسے الٰہی نہ ہو دل پہ کیوں خانہ خدا ہی نہ ہو نہیں ممکن اُسے تباہ ہی نہ ہو سامنے اہلِ زر کے کیا یہ پھیلے جو دعا کو بھی ہاتھ اُٹھا ہی نہ ہو کیا خلش...
  4. کاشفی

    کہاں سے لختِ جگر لاؤں دمبدم سو سو - لالہ مکندلعل جوہری

    غزل (شاعر نازک خیال لالہ مکندلعل صاحب المتخلص بہ جوہری ساکن قصبہ کاکوری ضلع لکھنؤ) کہاں سے لختِ جگر لاؤں دمبدم سو سو ہر ایک پل میں بہاتے ہیں چشم نم سو سو ہیں بات بات پہ نازاں اُن کے دمبدم سو سو ہر ایک ناز میں کرتے ہیں وہ ستم سو سو شرار سنگ میں قدرت کے نور کا ہے ظہور ہر ایک سنگ...
  5. فرخ منظور

    آتش ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا ۔ آتش

    غزل ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل...
  6. کاشفی

    میر مہدی مجروح عدو پر ہے یہ لطفِ دم بدم کیا؟ - میر مہدی حسین مجروح رحمتہ اللہ علیہ

    غزل (میر مہدی حسین مجروح‌رحمتہ اللہ علیہ) عدو پر ہے یہ لطفِ دم بدم کیا؟ ہوئے وہ آپ کے قول و قسم کیا؟ ملیں اس تندخو سے جا کے ہم کیا یہ سچ ہے آب و آتش ہوں بہم کیا ذرا ذرے کی تم مقدار دیکھو ہمارا بیش و کم کیا اور ہم کیا کھڑے ہیں چوکڑی بھولے جو آہو نظر ان کا پڑا اندازِ رم کیا؟ نہاں ہر شکر...
  7. کاشفی

    داغ آپ کا اعتبار کون کرے - داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ

    غزل (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) آپ کا اعتبار کون کرے روز کا انتظار کون کرے ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے پر تمہیں شرمسار کون کرے جو ہو اوس چشم مست سے بیخود پھر اوسے ہوشیار کون کرے تم تو ہو جان اِک زمانے کی جان تم پر نثار کون کرے آفتِ روزگار جب تم ہو شکوہء روزگار کون کرے...
  8. کاشفی

    داغ یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے - داغ دہلوی

    غزل (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے آئینگی ٹوٹ ٹوٹکر قاصد پر آفتیں غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے...
  9. کاشفی

    داغ کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو - داغ دہلوی

    غزل (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو مطلب کے کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں مطلب کے پوچھتی ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی اپنے کئے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو پچھتاؤ گے...
  10. محمد وارث

    کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے - حکیم اجمل خاں شیدا

    کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے! یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے...
  11. کاشفی

    مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب اور متین امروہوی - 3

    غزل (مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب رحمتہ اللہ علیہ) شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں‌بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب تیر بھی سینہء‌بسمل سے پر افشاں نکلا بوئے گل، نالہء دل، بوئے چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا دل حسرت زدہ تھا مائدہء لذت...
  12. کاشفی

    مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب اور متین امروہوی - 2

    غزل (مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب رحمتہ اللہ علیہ) دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہء معنی نہ ہوا سبزہء خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزرگاہ خیال مے و...
  13. کاشفی

    غالب کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے - غالب

    غزل (غالب رحمتہ اللہ علیہ) کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مُجھ سے خُدایا جذبہء‌دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مُجھ سے وہ بَد خُو اور میری داستانِ عشق طولانی عبارت مختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے...
  14. کاشفی

    غزل : مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب اور متین امروہوی - 1

    غزل (مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب رحمتہ اللہ علیہ) دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا دل میں‌ذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا عرض کیجئے...
  15. محمد وارث

    میر غزل - عشق میں بے خوف و خطر چاہئے - میر تقی میر

    عشق میں بے خوف و خطر چاہئے جان کے دینے کو جگر چاہئے قابلِ آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں واقعہ اک شام و سحر چاہئے (1) حال یہ پہنچا ہے کہ...
  16. پ

    مصحفی غزل-یہ دلی کا نقشہ اتارا زمیں پر -شیخ غلام ہمدانی مصحفی

    غزل-یہ دلی کا نقشہ اتارا زمیں پر -شیخ غلام ہمدانی مصحفی یہ دلی کا نقشہ اتارا زمیں پر کہ لا عرش کو یاں اتارا زمیں پر قسم ہے سلیماں کی پیشِ زماں میں یہیں پریوں کا تھا گذارا زمیں پر میں وہ سنگِ راہ ہوں کہ جو ٹھوکروں میں پھرے ہر طرف مارا مارا زمیں پر فلک نے اپنے تئیں دور کھینچا یہ...
  17. کاشفی

    داغ یاں‌ دل میں خیال اور ہے، واں مدنظر اور - داغ دہلوی

    غزل (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) یاں‌ دل میں خیال اور ہے، واں مدنظر اور ہے حال طبیعت کا اِدھر اور، اُدھر اور ہر وقت ہے چتون تری اے شعبدہ گر اور اک دم میں‌مزاج اور ہے، اک پل میں نظر اور ناکارہ و نادان کوئی مجھ سا بھی ہوگا آیا نہ بجز بے خبری مجھ کو ہنر اور ہوں پہلے ہی میں عشق...
  18. فرخ منظور

    نظیر اس کے شرارِ حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا۔ نظیر اکبر آبادی

    اس کے شرارِ حسن نے، شعلہ جو اک دکھا دیا طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو اس نے تو میری چشم کو، قبلہ نما بنا دیا میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا میں ہوں پتنگِ کاغذی، ڈور ہے اس کے ہاتھ میں چاہا...
  19. فرخ منظور

    نظیر مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا ۔ نظیر اکبر آبادی

    مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا کسی صورت سے تم واں تک مرا مذکور لے جانا اگر وہ شعلہ رُو پوچھے مرے دل کے پھپولوں کو تو اس کے سامنے اِک خوشۂ انگور لے جانا جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی تو یارو تم گلِ صد برگ با کافور لے جانا اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو کہیں سے...
  20. فرخ منظور

    نظیر نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا ۔ نظیر اکبر آبادی

    نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا وہ دل ہی جانے ہے اس دم جو دل کا حال ہوا اگر کہوں میں کہ چمکا وہ برق کی مانند تو کب مثل ہے یہ اس کی جو بے مثال ہوا قرار و ہوش کا جانا تو کس شمار میں ہے غرض پھر آپ میں آنا مجھے محال ہوا ادھر سے بھر دیا مے نے نگاہ کا ساغر ادھر سے زلف کا حلقہ گلے کا جال ہوا...
Top