میر غزل -تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے -میر تقی میر

غزل
تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے
ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے

آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کرو گے ، ہم گریہ سر کریں گے

عذرِ گناہِ خوباں ، بد تر گناہ سے ہو گا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے

سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہو ں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطع نظر کریں گے

اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے

گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہمنشیں ہم
شامِ غمِ جدائی کیونکر سحر کریں گے

یہ ظلم بے نہائت دیکھو تو خوبرویاں
کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے

اپنے ہی جی میں آخر انصاف کر کے کب تک
تو یہ ستم کرے گا ہم در گزر کریں گے

صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میر جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے

میر تقی میر​
 

جیہ

لائبریرین
میر کو انہی قسم کے اشعار نے میر بنایا ہے۔ کیا سادہ طرز ہے۔ محاورات کا برجستہ استعمال کمال کا ہے ، عذر گناہ بد تر از گناہ کا کیا خوب ترجمہ ہوا ہے

عذرِ گناہِ خوباں ، بد تر گناہ سے ہو گا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے

اس غزل میں میر کی روایتی رونا دھونا اتنا نہیں۔ چند شعروں میں بلند خیالی انتہا پر ہے۔ یہ شعر تو کمال کا ہے


اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے
 
Top