جگر

  1. فرخ منظور

    جگر ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے ۔ جگر مراد آبادی

    ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے یکساں ہے...
  2. ش

    جگر پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا ۔ جگر مرادآبادی

    پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا سینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق دامن میں پھر معاملہء چشمِ تر...
  3. ش

    جگر کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا ۔ جگر مرادآبادی

    کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا جب اُس رخِ پرنور کا جلوہ نظر آیا کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا یہ حسن ، یہ شوخی ، یہ کرشمہ ، یہ ادائیں دنیا نظر آئی مجھے ، تو کیا نظر آیا اِک سر خوشیِ عشق ہے ، اک بے خودیِ شوق آنکھوں کو ، خدا جانے ، مری کیا...
  4. ش

    جگر یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے ۔ جگر مرادآبادی

    یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے کہ شیشہ توڑدے اور بے پئے سرشار ہوجائے دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہوجائے لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہوجائے ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہوجائے جنوں کی...
  5. عمران شناور

    جگر زندگی ہے مگر پرائی ہے (جگر مراد آبادی)

    زندگی ہے مگر پرائی ہے مرگِ غیرت! تری دہائی ہے جب مسرت قریب آئی ہے غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے حسن نے جب شکست کھائی ہے عشق کی جان پر بن آئی ہے عشق کو زعمِ پارسائی ہے حسنِ کافر! تری دہائی ہے ہائے وہ سبزہء چمن کہ جسے سایہء گل میں نیند آئی ہے عشق ہے اس مقام پر کہ جہاں زندگی نے...
  6. دل پاکستانی

    جگر ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گيا - جگر مراد آبادی

    ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا! رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا...
  7. دل پاکستانی

    جگر جہل خرد نے دن يہ دکھائے - جگر مراد آبادی

    جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے ہائے وہ کيونکر دل بہلائے غم بھی جس کو راس نہ آئے ضد پر عشق اگر آ جائے پانی چھڑکے‘ آگ لگائے دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے بھاگے لیکن راہ نہ پائے کیسا مجاز اور کیسی حقیقت؟ اپنے ہی جلوے‘ اپنے ہی سائے جھوٹی ہے ہر ايک مسرت روح...
  8. پ

    جگر غزل-دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد (جگر مراد آبادی

    دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے اب تک ہے وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں کیجیئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں...
  9. سیفی

    جگر جگر مراد آبادی کے کلام سے اقتباس

    نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لوٹ لیا نہ پوچھو شومئی تقدیرِ خانہ بربادی جمالِ یار کہاں نقشِ پا نے لوٹ لیا دل تباہ کی روداد، اور کیا کہئے خود اپنے شہر کو فرماں روا نے لوٹ لیا زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا نہ اب...
Top