جگر یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے ۔ جگر مرادآبادی

شاہ حسین

محفلین
یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے

وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑدے اور بے پئے سرشار ہوجائے

دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہوجائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہوجائے

ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہوجائے
جنوں کی رُوحِ خوابیدہ اگر بیدار ہوجائے

سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اُسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے ، نہ توہین جمالِ یار ہو جائے

حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو ؟
کہ جو آسودہ زیر سایئہ دیوار ہو جائے ؟

معاذ اللہ ، اس کی وارداتِ غم ، معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو ، اور چمن بیزار ہو جائے

یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے

اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اُٹھے
نظر تلوار بن جائے ، نفس جھنکار ہوجائے

یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
 

مغزل

محفلین
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اُسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے ، نہ توہین جمالِ یار ہو جائے

یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے

سبحان اللہ سبحان اللہ کیا کہنے ماشا اللہ کیا خوب انتخاب ہے ماشا اللہ ۔ بہت بہت شکریہ شاہ جی
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ مصرح کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے

شاہ جی بہت خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ شئیر کرنے کے لئے۔ لیکن پہلے مصرع میں مصرح لکھا گیا ہے۔ مصرع کی بجائے۔ عنوان اور پہلے مصرع میں درست کر لیں۔
 

شاہ حسین

محفلین
تمام احباب کا بہت شکریہ ۔

جناب سخنور صاحب بہت شکریہ آپ کا صحیح فرمایا جناب نے غلطی سے مصرح ہی لکھا تھا درستگی فرمادی گئی ہے ۔
 

شکیب

محفلین
الف عین مزمل شیخ بسمل @وارث
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بے زار ہو جائے
میں سینہ تان کے کب سے کھڑا ہوں دیکھتے کیا ہو؟
اک ایسا تیر پھینکو جو جگر کے پار ہو جائے

میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ دو اشعار اگر اس غزل کے نہیں ہیں، تو کس شاعر کے ہیں۔ہمارے جونیر کالج میں غزل سرائی کے مقابلے میں یہی غزل پڑھی گئی تھی، اور پانچ اشعار میں سے دو یہ تھے۔ شروعات 'یہ مصرع کاش۔۔۔۔' سے ہوئی تھی۔
 
غزل
جگر مراد آبادی
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے
ہر اک بے کار سی ہستی بروئے کار ہو جائے
جنوں کی روح خوابیدہ اگر بیدار ہوجائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی
معاذ اللہ اس کی واردات غم معاذاللہ
چمن جسکا وطن ہواورچمن بے زار ہوجائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالم انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے
نظر تلوار بن جائے نفس جھنکارہو جائے
سہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہوجائے
انتخاب : سید لبید غزنوی​
 
اور مزید کمال یہ ہے کہ آپ کا کمنٹ بھی پہلے سے موجود تھا۔ :p
دیکھ لیں پھر ہمیں خود حیرت ہے ۔۔۔ویسے میں سر بکف کا مطالعہ کر رہا تھا یہ مجھے اچھی لگی میں نے احباب تک پہچانے کی غرض سے لکھی اور شیئر کر دی خیر یہ بہت اچھی غزل ہے
 
Top