احمد فراز

  1. رند

    فراز خوف اتنا ہے تیرے شہر کی گلیوں میں فراز

    السلام علیکم فاصلے اتنے بڑھے ہجر میں آزار کے ساتھ اب تو وہ بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں طاق پہ عزت سادات بھی دستار کے ساتھ اک تو تم خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ ہم کو اس شہر میں جینے کا سودا ہے جہاں...
  2. فرحت کیانی

    فراز غزل- ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے۔ احمد فراز

    ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے جسے دیکھو وہی چُپ کا کفن پہنے ہوئے ہے وہی سچ بولنے والا ہمارا دوست دیکھو گلے میں طوق پاؤں میں رسن پہنے ہوئے ہے اندھیری اور اکیلی رات اور دل اور یادیں یہ جنگل جگنوؤں کا پیرہن پہنے ہوئے ہے رہا ہو بھی چُکے سب ہم قفس کب کے مگر دل یہ وحشی اب بھی زنجیرِ...
  3. فرحت کیانی

    فراز غزل۔ وہی عشق جو تھا کبھی جنوں اسے روزگار بنا دیا

    وہی عشق جو تھا کبھی جنُوں اسے روزگار بنا دیا کہیں زخم بیچ کے آ گئے کہیں شعر کوئی سُنا دیا وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی دُرِ آبرو کی چمک دمک یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں زرِ داغِ دل بھی لُٹا دیا کبھی یوں بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں تھے تو دُکھی نہ تھے مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا...
  4. ا

    فراز سائے کی طرح نہ خود سے رم کر - احمد فراز

    سائے کی طرح نہ خود سے رم کر دیوار کو اپنا ہم قدم کر اپنے ہی لیے بہا نہ دریا اوروں کے لیے بھی آنکھ نم کر تکمیل طلب نہیں ہے منزل طے راہ وفا قدم قدم کر اے پچھلی رتوں کو رونے والے آنے والے دنوں کا غم کر ممکن ہو تو تیشہء ہنر سے ہر پارہء سنگ کو صنم کر ہے چشم براہ ایک دنیا پتھر کی...
  5. ا

    فراز ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ - احمد فراز

    غزل ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح لگا ہے تو سن ہستی کو تازیانہ...
  6. فرحت کیانی

    فراز غزل۔ فضا بے ابر شاخیں بے ثمر ہیں

    فضا بے ابر شاخیں بے ثمر ہیں پرندوں سے شجر محروم تر ہیں کوئی موسم قرینے کا نہ آیا ہواؤں کے سخن نا معتبر ہیں تری قربت کے لمحے پھول جیسے مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں بہت سے زخم تیرے نام کے تھے اسی باعث بہت سے چارہ گر ہیں پڑے ہیں قربتوں میں فاصلے وہ کہ جو نزدیک تر تھے دُور تر ہیں...
  7. Saraah

    ساقیا سنبھال ہمیں -کلام فراز-گل بہار بانو

    ساقیا سنبھال ہمیں -کلام فراز-گل بہار بانو
  8. D

    احمد فراز کی حسِ مزاح اور پچھتاوے از افتخار نسیم

    احمد فراز کی حسِ مزاح اور پچھتاوے افتی نامہ۔۔۔۔از افتخار نسیم۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور احمد فراز کی پہلی برسی آئی اور چلی گئی‘ چند لوگوں نے اسے یاد کیا ،کشور ناہید ٹی وی پر اس کی بیوہ بن کر واویلا کرتی رہی، شبلی اور ان کا بیٹا ٹی وی پر اپنی پندرہ منٹ کی شہرت لے کر غائب ہو گئے۔ اشفاق احمد...
  9. فاتح

    اول اول کی دوستی ہے ابھی ۔ چھایا گنگولی اور استاد معین خان

    اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی شاعر: احمد فراز گلوکار: چھایا گنگولی اور استاد معین خان مکمل غزل یہاں موجود ہے۔
  10. فاتح

    فراز اول اول کی دوستی ہے ابھی ۔ فراز

    اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی میں بھی شہرِ وفا میں نو وارد وہ بھی رُک رُک کے چل رہی ہے ابھی میں بھی ایسا کہاں کا زُود شناس وہ بھی، لگتا ہے، سوچتی ہے ابھی دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی گر چہ پہلا سا اجتناب نہیں پھر بھی کم کم سپردگی ہے...
  11. فرخ منظور

    نور جہاں آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا ۔ نورجہاں

    آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا وقت کا کیا ہے گذرتا ہے گذر جائے گا اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائیگا تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤ گے اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا ڈوبتے...
  12. م

    فراز اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری - فراز

    اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں ہم پہ اے دوست یہ...
  13. فرحت کیانی

    فراز غزل۔ کس قدر آگ برستی ہے یہاں ۔ احمد فراز

    کس قدر آگ برستی ہے یہاں خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں احمد فراز
  14. ا

    فراز سید الشہدا

    دشت غربت میں صداقت کے تحفظ کے لئے تو نے جاں دے کے زمانے کو ضیا بخشی تھی ظلم کی وادئ خونیں میں قدم رکھا تھا حق پرستوں کو شہادت کی ادا بخشی تھی آتشِ دہر کو گلزار بنایا تو نے تو نے انسان کی عظمت کو بقا بخشی تھی اور وہ آگ وہ ظلمت وہ ستم کے پرچم ترے ایثار ترے عزم سے شرمندہ ہوئے جرات...
  15. ا

    فراز یہ پرچمِ جاں

    یہ پرچمِ جاں (تحریک آزادی کشمیر کی نذر) جنت میں بھڑک رہے تھے شعلے پھولوں کی جبیں جھلس گئی تھی شبنم کو ترس گئی تھی شاخیں گلزار میں‌آگ بس گئی تھی نغموں کا جہاں تھا ریزہ ریزہ اک وحشتِ درد کُو بکُو تھی ہر دل تھا بجھا چراغ گویا ہر چشمِ طلب لہو لہو تھی میں اور میرے رفیق برسوں خاموش...
  16. ا

    فراز اے مرے شہر!

    "جنگ 1965 میں‌13 ستمبر کو کوہاٹ پر بھارت کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے بیشمار معصوم جانیں تلف ہوئی تھیں" مرے شہر! میں تجھ سے نادم ہوں اس خامشی کے لیے جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ بھیگی ہوئی رات میں آگ برسا رہا تھا میں چپ تھا مرے شہر! میں تیرا مجرم ہوں اس بے حسی کے لیے جب تیرے بام و...
  17. فرحت کیانی

    فراز غزل- بہت سیرِ گُل اے صبا کر چلے

    بہت سیرِ گُل اے صبا کر چلے یہاں تک کہ دل کو قبا کر چلے وہ تیری گلی تھی کہ شہرِ عدو جدھر بھی گئے سر اُٹھا کر چلے جو احوال اپنا ہُوا سو ہُوا عبث دوستوں کو خفا کر چلے یہ محفل تری، اہلِ محفل ترے ہمارا تھا کیا ہم تو آ کر چلے یہ کیا آج چارہ گروں کو ہُوا دوا کی بجائے دُعا کر چلے نوا...
  18. پ

    فراز غزل -کب تک درد کے تحفے بانٹو خون جگر سوغات کرو - احمد فراز

    غزل نذرِ حبیب جالب کب تک درد کے تحفے بانٹو خون جگر سوغات کرو "جالب ہن گل مک گئ اے" ہن جان نوں ہی خیرات کرو کیسے کیسے دشمن جاں اب پرسش حال کو آئے ہیں ان کے بڑے احسان ہیں تم پر اٹھو تسلیمات کرو تم تو ازل کے دیوانے اور دیوانوں کا شیوہ ہے اپنے گھر کو آگ لگا کر روشن شہر کی رات کرو اے بے...
  19. سارہ خان

    فراز وہ جو آ‌جاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر - احمد فراز

    وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ...
  20. فرحت کیانی

    فراز غزل۔ جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا

    جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف سو ہے ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہا سو سہا جسے جسے نہیں چاہا اُسے اُسے چاہا جہاں جہاں بھی مرا دل نہیں رہا سو رہا نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا سو...
Top