فراز غزل۔ وہی عشق جو تھا کبھی جنوں اسے روزگار بنا دیا

فرحت کیانی

لائبریرین
وہی عشق جو تھا کبھی جنُوں اسے روزگار بنا دیا
کہیں زخم بیچ کے آ گئے کہیں شعر کوئی سُنا دیا

وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی دُرِ آبرو کی چمک دمک
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں زرِ داغِ دل بھی لُٹا دیا

کبھی یوں بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں تھے تو دُکھی نہ تھے
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا

کبھی خود کو ٹوٹتے پھوٹتے بھی جو دیکھتے تو حزیں نہ تھے
مگر آج خود پہ نظر پڑی تو شکستِ جاں نے ہلا دیا

کوئی نامہ دلبرِ شہر کا کہ غزل گری کا بہانہ ہو
وہی حرفِ دل جسے مدتوں سے ہم اہلِ دل نے بھلا دیا

کلام: احمد فراز
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ہے۔ بہت شکریہ فرحت۔
درج ذیل مصرع کو ذرا ایک نظر دوبارہ کتاب سے دیکھیے گا کہ کیا اسی طرح ہے؟
مگر اب یہ ہے کہ کسی مہرباں کے تپاک نے رُلا دیا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح :)
میں اور لکھتے ہوئے غلطی نہ کروں :( یہ ہو نہیں سکتا۔ درست مصرعہ یوں ہے:
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا

میں نے غزل میں ٹھیک کر دیا ہے۔ بہت شکریہ :)
 

مہ جبین

محفلین
کبھی یوں بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں تھے تو دُکھی نہ تھے​
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا​

کبھی خود کو ٹوٹتے پھوٹتے بھی جو دیکھتے تو حزیں نہ تھے​
مگر آج خود پہ نظر پڑی تو شکستِ جاں نے ہلا دیا​
بہت عمدہ انتخابِ کلام فرحت کیانی
 
اعلیٰ انتخاب ہے فرحت(y)

وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی دُرِ آبرو کی چمک دمک​
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں زرِ داغِ دل بھی لُٹا دیا​

کبھی یوں بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں تھے تو دُکھی نہ تھے​
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا​

کبھی خود کو ٹوٹتے پھوٹتے بھی جو دیکھتے تو حزیں نہ تھے​
مگر آج خود پہ نظر پڑی تو شکستِ جاں نے ہلا دیا​
 
Top