فراز غزل- بہت سیرِ گُل اے صبا کر چلے

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت سیرِ گُل اے صبا کر چلے
یہاں تک کہ دل کو قبا کر چلے

وہ تیری گلی تھی کہ شہرِ عدو
جدھر بھی گئے سر اُٹھا کر چلے

جو احوال اپنا ہُوا سو ہُوا
عبث دوستوں کو خفا کر چلے

یہ محفل تری، اہلِ محفل ترے
ہمارا تھا کیا ہم تو آ کر چلے

یہ کیا آج چارہ گروں کو ہُوا
دوا کی بجائے دُعا کر چلے

نوا سنج سارا قفس ہے فراز
یہاں تک تو ہم بے نوا کر چلے


احمد فراز
 
Top